Maktaba Wahhabi

202 - 534
۴۔ جادو گر کی سزا: عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کی ایک لونڈی نے ان پر جادو کر دیا۔ ام المومنین نے عبدالرحمن بن زید کو اسے قتل کرنے کا حکم دیا انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس پر نکیر کی تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: آپ ام المومنین پر اس خاتون کے قتل پر کیوں نکیر کرتے ہیں جس نے ان پر جادو کیا اور اس نے اس کا اعتراف بھی کیا؟ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے خاموشی اختیار کی۔ عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کے قتل پر اعتراض نہ تھا چوں کہ حدود کا قائم کرنا امام وقت کا حق ہے، اس کا کام ہے کہ اقامت حدود کا حکم جاری کرے چوں کہ خلیفہ کے حق کو ضائع کیا گیا تھا اس لیے عثمان رضی اللہ عنہ نے نکیر فرمائی تھی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا مذکورہ قول((الساحر یقتل ولا یستتاب)) اسی پر دلالت کرتا ہے یعنی اس سلسلہ میں فیصلہ واضح ہے اور اس کے مستحق کا قتل ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔[1] ۵۔ اندھے کا جرم: اندھے کے رہنما کی حیثیت ایک آلہ کی ہے وہ اس کے حکم سے حرکت کرتا ہے، وہ اپنے مصاحبین سے غافل ہوتا ہے، وہ حرکت کرتے ہوئے گر سکتا ہے یا نقصان زدہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے کہ وہ دوسرے کو اپنی حرکت سے نقصان پہنچانے سے بچ سکے کیوں کہ وہ اسے دیکھتا نہیں، اس لیے اگر وہ اپنے رہنما یا کسی ہم نشین کو بلا قصد نقصان پہنچا دے یا زیادتی کا مرتکب ہو جائے تو اس کا جرم رائیگاں ہے، اس پر کوئی پکڑ نہیں چنانچہ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’جو اندھے کی صحبت میں ہو اور اندھے سے اس کو کچھ نقصان پہنچ جائے تو اندھے پر کوئی گرفت نہیں۔‘‘[2] ۶۔ دو آپس میں جھگڑنے والوں کا ایک دوسرے پر زیادتی کرنا: لوگوں کے آپس میں اختلافات رونما ہوتے ہیں اور لڑائی جھگڑے کے نتیجہ میں ایک دوسرے پر زیادتی ہوتی ہے۔ اگر اس طرح کی کوئی چیز رونما ہو جائے تو بدلہ واجب ہے کیوں کہ یہ زیادتی عمداً ہوئی ہے۔ بظاہر باہم جھگڑنے والے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے حریص ہوتے ہیں چنانچہ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’دو آدمی جب آپس میں جھگڑا کریں اور زخم وغیرہ آجائے تو اس میں بدلہ ہے۔‘‘[3] ۷۔ جانور پر زیادتی: اگر جانور پر کسی نے زیادتی کی تو وہ اس کی قیمت کا ضامن ہو گا چنانچہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
Flag Counter