Maktaba Wahhabi

217 - 534
۲۱۔ مفلس [1] پر حکم امتناعی عثمان رضی اللہ عنہ مفلس پر حکم امتناعی کے حق میں تھے اور جب مفلس پر حکم امتناعی نافذ کر دیا جائے تو قرض خواہ اپنے قرضوں کے حساب سے اس کا مال تقسیم کر لیں گے لیکن اگر کسی کو اپنا مال جو اس سے بیچا تھا بعینہٖ مل جائے تو اس کے لیے جائز ہے کہ بیع کو فسخ کر کے اپنا مال واپس لے لے۔[2] کیوں کہ دوسروں کی بہ نسبت وہ زیادہ اس کا مستحق ہے۔[3] ۲۲۔ ذخیرہ اندوزی کی حرمت: عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ذخیرہ اندوزی سے روکتے اور منع کرتے تھے۔[4] بظاہر عثمان رضی اللہ عنہ اس سلسلہ میں اپنے پیش رو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے منہج پر قائم تھے خواہ غلہ میں ہو یا دوسری اشیاء میں ، ان کے مابین تفریق کے قائل نہ تھے کیوں کہ آپ کی ممانعت عام تھی۔ خاص کر اس لیے کہ ذخیرہ اندوزی کی تحریم سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی بعض نصوص مطلق اور بعض مقید ہیں اور ان میں کوئی تعارض نہیں، اس لیے مطلق اپنے اطلاق پر باقی رہے گا۔[5] ۲۳۔ بھٹکے ہوئے اونٹ: امام مالک رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے دور میں گم شدہ اونٹ چھٹے رہتے تھے اور ان کے توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رہتا، ان کو کوئی نہیں چھیڑتا تھا یہاں تک کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو آپ نے یہ حکم جاری فرمایا کہ ایسے اونٹوں کا تعارف کرایا جائے اگر مالک کا پتہ نہ چلے تو اس کو بیچ دیا جائے اور جب اس کا مالک مل جائے تو اس کو قیمت دے دی جائے۔[6] عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا فعل صحیحین میں زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کی اس روایت کے مطابق تھا کہ ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گری پڑی اشیاء سے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اعرف عفاصہا و وکاء ہا ثم عرف سنۃ ،فان جاء صاحبہا و الا فشأنک بہا۔)) ’’اس کے برتن کی ساخت اور اس کے بندھن کو ذہن میں رکھو پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرتے رہو اگر اس کا مالک آجائے تو اسے اس کا مال واپس کر دو ورنہ اپنی ضروریات میں خرچ کر لو۔‘‘
Flag Counter