Maktaba Wahhabi

522 - 534
اور تاریخ ابن عساکر میں محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ میں کعبہ کا طواف کر رہا تھا اسی دوران ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے اللہ مجھے بخش دے اور میں نہیں گمان کرتاکہ تو مجھے بخشے گا۔ میں نے اس سے کہا، اللہ کے بندے میں تجھے کیا کہتے ہوئے سن رہا ہوں، ایسا تو کوئی نہیں کہتا۔ اس نے کہا کہ میں نے اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ اگر مجھے قدرت ہوئی تو میں عثمان کے چہرے پر طمانچہ لگاؤں گا۔ جب وہ شہید ہو گئے اور ان کی چارپائی گھر میں رکھی گئی لوگ آتے رہے اور آپ پر جنازہ پڑھتے رہے تو میں بھی داخل ہوا گویا کہ میں جنازہ پڑھنا چاہتا ہوں، میں نے دیکھا کہ جگہ خالی ہے کفن کا کپڑا اٹھایا اور چہرہ پر طمانچہ مار دیا اور پھر کپڑا ڈھانک دیا۔ اب میرا یہ دایاں ہاتھ سوکھ گیا ہے۔ محمد بن سیرین رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں نے اس کے ہاتھ کو لکڑی کی طرح سوکھا ہوا دیکھا۔[1] ان ظالموں کے ظلم کی پاداش میں صرف مسلمانوں کا ان کے خلاف قیامت تک کے لیے تلوار کھینچ لینا کافی ہے۔ قاسم بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اور بیعت خلافت سے قبل علی رضی اللہ عنہ کا گزر مدینہ میں دو آدمیوں کے پاس سے ہوا، وہ دونوں کہہ رہے تھے: بیضاء کا بیٹا شہید ہو گیا، اسلام و عرب میں آپ کے مقام کا کیا کہنا، پھر اللہ کی قسم اب یہ جگہ کوئی پر نہیں کر سکتا۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تم دونوں نے کیا کہا؟ انہوں نے اپنی بات دہرائی، آپ نے فرمایا: کیوں نہیں، اللہ کی قسم مردوں کے بعد مرد پیدا ہوتے رہیں گے اور لشکر کے بعد لشکر وجود میں آتے رہیں گے یہاں تک کہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام آئیں گے۔[2] شہادت عثمان رضی اللہ عنہ پر مسلمانوں کے تاثرات اور اس سلسلہ میں کہے گئے اشعار اس مصیبت کا مسلمانوں پر بڑا گہرا اثر پڑا، حزن و غم نے انہیں ڈھانپ لیا ان کی آنکھوں کے آنسو سیل رواں کی طرح بہنے لگے اور عثمان رضی اللہ عنہ کی مدح و ثنا میں رطب اللسان ہوئے اور رحمت کی دعائیں کرنے لگے۔ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین پر مرثیہ کہا، آپ کی شہادت پر اپنے درد و غم کو بیان کیا، قاتلین کی ہجو کی اور ان کے کرتوت پر ان کی سرزنش کی۔3[3] فرماتے ہیں: أتر کتم غزو الدروب وراء کم وغزوتمونا عند قبر محمد ’’اپنے پیچھے محاذ جنگ کو چھوڑ کر قبر نبوی کے پاس ہم سے جنگ کر رہے ہو۔‘‘
Flag Counter