Maktaba Wahhabi

72 - 534
کی وفات کے وقت ان کو غسل دلایا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازار دی، پھر قمیص، پھر دوپٹہ، پھر چادر دی، پھر دوسرے کپڑے میں لپیٹ دی گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے پر کھڑے ہوئے ایک ایک کپڑا پکڑا رہے تھے۔[1]اور طبقات ابن سعد میں ہے کہ ابو طلحہ کے ساتھ علی بن ابی طالب، فضل بن عباس، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم ان کی قبر میں اترے، اور اسماء بنت عمیس اور صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے انہیں غسل دیا۔[2] ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی جدائی سے عثمان رضی اللہ عنہ بے حد متاثر ہوئے اور بڑے ہی حزن و ملال کا شکار ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا کہ غم میں نڈھال سر جھکائے جا رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے قریب ہوئے اور فرمایا: اے عثمان! اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو تم سے شادی کر دیتا۔[3] یہ عثمان رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی دلیل ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عثمان رضی اللہ عنہ کی وفاداری اور توقیر کی دلیل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے اس بدشگونی کی نفی ہوتی ہے جو ہمارے معاشرہ میں ایسے موقع پر پائی جاتی ہے۔ اللہ کے حکم کو کوئی ٹالنے والا نہیں اس کا حکم نافذ ہو کر رہتا ہے، تقدیر الٰہی ہرگز نہیں ٹلتی۔[4] ۳۔ اسلامی حکومت کی تعمیر میں اقتصادی تعاون عثمان رضی اللہ عنہ ان اغنیاء میں سے تھے جنھیں اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا تھا۔ آپ بہت بڑے تاجر تھے، مال و دولت کی انتہا نہ تھی، لیکن آپ نے اس مال و دولت کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی اطاعت میں لگا رکھا تھا، ہر کار خیر میں سبقت کرتے اور بے دریغ خرچ کرتے، فقر و محتاجی کا ذرا بھی خوف نہ کھاتے، بطور مثال بعض مواقع کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے جس میں عثمان رضی اللہ عنہ نے بے دریغ اپنا مال خرچ کیا: ۱۔ بئر رومہ: جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے وہاں میٹھے پانی کی بڑی قلت تھی، بئر رومہ کے علاوہ کوئی کنواں نہ تھا جہاں سے میٹھا پانی حاصل کیا جا سکے، اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( من یشتری بئر رومۃ فیجعل دلوہ مع دلاء المسلمین بخیر لہ فی الجنۃ۔))[5]
Flag Counter