Maktaba Wahhabi

420 - 534
انساب، ادب اور لغت کی کتابوں میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔ بہت سے جدید محققین اور ریسرچ اسکالرز نے اس کو تسلیم کیا ہے۔ سب سے پہلے ابن سبا کی شخصیت کو مشکوک قرار دینے والے بعض مستشرقین ہیں، پھر اس نظریہ کی تائید اکثر جدید شیعوں نے کی اور بعض نے تو اس کے وجود ہی کا انکار کر دیا، اسی طرح اس کا شکار بعض وہ عرب معاصرین ہوئے جو مستشرقین کے افکار و خیالات کے دلدادہ ہیں، اور جدید شیعی تحریروں سے متاثر ہیں، لیکن ان سب کے پاس کوئی دلیل نہیں، صرف شک، مجرد وہم وگمان اور مفروضوں پر اپنی عمارت قائم کرنا چاہتے ہیں۔[1] جو حضرات ان سنی، شیعی اور استشراقی مراجع کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہیں جن میں ابن سبا کا تذکرہ ہے تو وہ ڈاکٹر محمد امحزون کی کتاب ’’تحقیق مواقف الصحابۃ فی الفتنۃ‘‘ اور ڈاکٹر سلیمان بن حمد العودۃ کی کتاب ’’عبداللّٰہ بن سبا و اثرہ فی احدث الفتنۃ فی صدر الاسلام‘‘ کا مطالعہ کریں۔ فتنہ کی تحریک میں عبداللہ بن سبا کا کردار: عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری سالوں میں مذکورہ تبدیلی کے اسباب و عوامل کے نتیجہ میں اسلامی معاشرہ کے افق پر اضطراب کے آثار رونما ہونا شروع ہوئے۔ بعض یہود اس موقع کے انتظار میں تھے اور انہوں نے فتنہ کے اسباب و عوامل کو اختیار کیا، اور اسلام کا لبادہ اور تقیہ کی چادر اوڑھ کر میدان میں اتر آئے، انہی میں سے عبداللہ بن سبا تھا جس کا لقب ابن السوداء تھا، جس طرح ابن سبا کے کردار کے سلسلہ میں مبالغہ آرائی صحیح نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگوں نے کیا ہے،[2] اسی طرح اس کے کردار سے متعلق تشکیک بھی جائز نہیں۔ فتنہ برپا کرنے میں اس نے جوکردار ادا کیا ہے اس کو معمولی قرار نہیں دیا جا سکتا، فتنہ کے اسباب و اعوامل میں اس کا کردار اہم ترین اور انتہائی خطر ناک رہا ہے، اگرچہ وہ فضا فتنہ کے لیے سازگار تھی اور دیگر اسباب و عوامل نے اس کا ساتھ دیا تھا۔ ابن سبا ایسے افکار و عقائد لے کر آیا جس کو اس نے خود سے گھڑا، اور بدباطن یہودیت سے اخذ کیا، اور پھر اسلامی معاشرہ میں اپنے مقاصد کی برآری کے لیے اس کی ترویج و اشاعت کرنے لگا۔ اس کا مقصد اسلامی معاشرہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا، فتنہ کی آگ بھڑکانا اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف و انتشار کا بیج بونا تھا، یہ ان جملہ عوامل و اسباب میں سے تھے جن کے نتیجہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل ہوا، اور امت مختلف فرقوں اور پارٹیوں میں بٹ گئی۔[3] اس کے کرتوتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اس نے سچائی کی ترجمانی دعووں کو اساس بنایا اور اس پر اپنے فاسد مبادی کی بنیاد قائم کی، جو سادہ لوح، غالی اور باطل افکار و خواہشات کے حاملین کے درمیان خوب پھیلے، اس نے پر پیچ راستہ اختیار کیا، اور اپنے مریدوں کو دھوکہ دیا، اور وہ اس کے افکار و نظریات سے متفق ہو گئے، اس شخص نے قرآن کا سہارا لیا اور اپنے زعم فاسد کے مطابق اس کی تاویل شروع کی، چنانچہ اس نے کہا: لوگوں پر تعجب ہے کہ
Flag Counter