Maktaba Wahhabi

419 - 534
یعقوب بن یزید اور محمد بن عیسیٰ نے علی بن مہزیار سے روایت کی اور اس نے فضالہ بن ایوب ازدی سے، اس نے ابان بن عثمان سے، اس نے کہا میں نے ابو عبداللہ (جعفر صادق) کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ کی لعنت ہو عبداللہ بن سبا پر، اس نے امیر المومنین (علی رضی اللہ عنہ ) کے سلسلہ میں ربوبیت کا دعویٰ کیا۔ اللہ کی قسم امیر المومنین اطاعت گزار بندہ تھے، تباہی و بربادی ہو اس شخص کے لیے جو ہم پر جھوٹ باندھے، یقینا کچھ لوگ ہمارے متعلق وہ باتیں کہتے ہیں جو ہم اپنے بارے میں نہیں کہتے، ہم اللہ کے حضور ان لوگوں سے اپنی براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔[1] یہ روایت سند کے اعتبار سے صحیح ہے۔[2] ٭ کتاب الخصال میں قمی نے اس روایت کو نقل کیا ہے، لیکن دوسری سند سے موصولاً بیان کیا ہے۔ اور ’’روضات الجنات‘‘ کے مصنف نے ابن سبا کا تذکرہ اپنی کتاب میں الصادق المصدوق سے کیا ہے، جنھوں نے ابن سبا پر لعنت بھیجی ہے اور اسے کذب و تزویر، افشائے راز اور تاویل سے متہم ٹھہرایا ہے۔[3] ڈاکٹر سلیمان بن العودہ نے اپنی کتاب میں ان نصوص کو ذکر کیا ہے جن سے شیعی کتب اور عبداللہ بن سبا کے ذکر سے ان کی مرویات بھری پڑی ہیں، یہ رجسٹرڈ دستاویزات ہیں جو ان متاخرین شیعہ کی تردید کرتے ہیں جو عبداللہ بن سبا سے متعلق روایات کی قلت یا ضعف کے بہانے اس کا انکار یا اس کے وجود میں تشکیک کرتے ہیں۔[4] یقینا عبداللہ بن سبا کی شخصیت ایک تاریخی حقیقت ہے، سنی و شیعی جدید و قدیم تمام مراجع اس پر متفق ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں، اسی طرح اکثر مستشرقین کے یہاں بھی یہ مسلم ہے جیسے جولیس ولہاؤزن،[5] فان فولٹن،[6] لیفی دیلا فیدا،[7] گولڈ زیہر،[8] رینولڈ نکلس،[9] ڈوایٹ رونلڈسن،[10] صرف تھوڑے سے مستشرقین نے ابن سبا کی شخصیت کو محل شک اور خرافہ قرار دیا ہے، جیسے کیتانی، برنارڈلویس، [11]فریڈ لنڈر۔ [12] یہ واضح ہونا چاہیے کہ ہم اپنے تاریخی واقعات سے متعلق ان کا اعتبار نہیں کرتے۔ جو بھی سنی اور شیعی مراجع کا استقراء کرے گا خواہ وہ جدید ہوں یا قدیم، اس کے سامنے یہ حقیقت واضحہو جائے گی کہ عبداللہ بن سبا کا وجود حقیقت ہے، تاریخی روایات اس کو ثابت کرتی ہیں، عقائد کی کتابیں اس سے بھری پڑی ہیں اور حدیث، رجال،
Flag Counter