Maktaba Wahhabi

506 - 534
سیدہ اسماء محمد احمد نے ان روایات کے اسانید و متون کی تحقیق کی ہے جن کے اندر عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف رونما ہونے والے فتنہ میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے سیاسی کردار سے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔ انہوں نے ان روایات پر نقد و جرح کی ہے جو طبری وغیرہ میں امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے مابین سیاسی اختلاف بیان کرتی ہیں۔ انہوں نے ان روایات کے کھوٹ اور کذب کو واضح کیا ہے اور پھر فرماتی ہیں کہ مناسب تو یہ تھا کہ ان تمام روایات کے ذکر سے اعراض کیا جاتا جیسا کہ ابھی میں نے ذکر کیا کیوں کہ معتبر طریق سے یہ ہم تک نہیں پہنچی ہیں، جن طرق سے یہ روایات ہم تک پہنچی ہیں ان کے رواۃ سب تشیع، رفض اور کذب سے متہم ہیں، لیکن ہم نے اس لیے ان روایات کو یہاں پیش کیا ہے کیوں کہ اولاً یہ روایات اکثر جدید تالیفات میں عام ہیں اور ثانیاً ان روایات کا عدم ثبوت اور ساقط الاعتبار ہونا بیان کرنا مقصود ہے جیسا کہ ہمارے سامنے یہ حقیقت واضح ہوئی۔ ان روایات نے عثمان رضی اللہ عنہ اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے مابین اور عثمان رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ کے مابین اختلاف کی ایسی تاریخ پیدا کرنا چاہی ہے جس کا سرے سے وجود نہیں۔[1] اگر یہ بات صحیح ہوتی کہ انہوں نے باغیوں کے ساتھ عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کو ہوا دینے پر اتفاق کیا تھا تو ایسی صورت میں ان سے یہ توقع تھی کہ وہ ان باغیوں کے لیے کوئی عذر تلاش کرتیں، لیکن ایسی کوئی بات ان سے ثابت نہیں ہے، اور شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے موقف سے متعلق یہ روایات اگر صحیح ہوتیں تو یہ روایات ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ہم نوا صحابہ رضی اللہ عنہم کی عدالت کے اسقاط اور انہیں ناقابل اعتبار قرار دینے کے لیے کافی ہوتیں لیکن کسی قیمت پر ہم اس کو قبول نہیں کر سکتے کیوں کہ ان کی عدالت کے اثبات کے لیے سچی خبر اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جو ان روایات کے ابطال و تردید کے لیے کافی ہے۔ لیکن ان روایات اور ان پر قائم استدلالات کے بطلان و سقوط کے باوجود ہم نے ان روایات کے سلسلہ میں توقف اختیار کیا تاکہ دینی، علمی اور تاریخی دلائل ایک ساتھ جمع ہو جائیں اور ایک دوسرے کو تقویت پہنچائیں۔[2] علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ : علی رضی اللہ عنہ اور آل بیت آپ کی تعظیم کرتے اور ان کے حق کے معترف تھے۔ ٭ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے والے سب سے پہلے علی رضی اللہ عنہ تھے۔[3] قیس بن عباد سے روایت ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کا ذکر آیا تو علی رضی اللہ عنہ کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا: آپ وہ شخص ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((الا استحی ممن تستحی منہ الملائکۃ۔))[4]
Flag Counter