لوگ شریک ہیں ان کا راز فاش نہ ہو سکے اس کی بیٹی کا قتل غلطی سے ہوا عبیداللہ نے سمجھا کہ وہ بھی قتل میں شریک تھی کیوں کہ اپنے والد کے لیے اسلحہ چھپائے رکھتی تھی۔[1] ۲۔ چوروں کا قتل: ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کی ولایت میں کوفہ کے کچھ نوجوانوں نے ابن الحیسمان خزاعی کے گھر میں نقب زنی کی، اس نے ان کی آہٹ محسوس کر لی اور تلوار لے کر نکلا لیکن جب اس نے انہیں بڑی تعداد میں دیکھا تو چیخ پڑا، انہوں نے اس سے کہا: خاموش ہو جا، ایک ہی ضرب میں تمہارا خوف ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ یہ سن کر وہ چیخ اٹھا اور انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ ابو شریح خزاعی یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ لوگوں نے گھیراؤ کر کے انہیں گرفتار کر لیا ان گرفتار شدگان میں زہیر بن جندب ازدی، مورع بن ابی مورع اسدی، شبیل بن ابی الازدی وغیرہ تھے۔ ابوشریح اور اس کے بیٹے نے ان کے خلاف گواہی دی۔ ولید نے ان کے سلسلہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کو رپورٹ بھیجی تو آپ نے ان سب کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا پھر ولید نے ان سب کو قصر کے دروازے پر قتل کیا۔ عمر بن عاصم تمیمی نے ان سے متعلق یہ شعر کہا: لا تأکلوا أبدا جیرانکم سرفا اہل الزعارۃ فی ملک ابن عفان ’’اے بد مزاج لوگو! عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں حد سے تجاوز کر کے اپنے پڑوسیوں کی کبھی غیبت نہ کرو۔‘‘ اور کہا: ان ابن عفان الذی جربتم فطم الصوص بمحکم الفرقان ’’بلاشبہ تمہارے آزمودہ ابن عفان نے قرآن کے احکام کو نافذ کر کے چوروں کی عادات چھڑائیں۔‘‘ ما زال یعمل بالکتاب مہیمنا فی کل عنق منہم و بنان[2] ’’ان کی گردن اور ہاتھوں سے متعلق کتاب اللہ کے حکم کو غالب طور پر نافذ کرتے رہے۔‘‘ ۳۔تاجر کا قتل: خلافت عثمانی میں ایک شخص نے ایک تاجر کو قتل کر دیا تو اس کی سزا قصاص مقرر کی گئی۔[3] |
Book Name | سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ، خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ، پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 535 |
Introduction |