Maktaba Wahhabi

480 - 534
طرح مدینہ سے نکل کر اس بات کی کوشش کی تھی کہ باغی عثمان رضی اللہ عنہ سے ہٹ جائیں اور رائے عامہ ان باغیوں کے خلاف ہو جائے۔ جس وقت سے آپ نے مکہ جانے کا سوچا تھا اس وقت سے آپ کے پیش نظر یہی تھا۔ امام ابن العربی نے اسی کو ثابت کیا ہے، فرماتے ہیں: مروی ہے کہ امہات المومنین اور صحابہ کا مدینہ سے نکل جانا اس شور و ہنگامہ کو ختم کرنے کے لیے تھا کہ اس طرح لوگ اپنی ماؤں امہات المومنین کی طرف رجوع ہوں گے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کا خیال رکھیں گے[1]اور ان امہات المومنین کی باتوں کو کان لگا کر سنیں گے جب کہ اکثر لوگ ہر چہار جانب سے ان کی باتوں کو سننے کے لیے آیا کرتے تھے۔[2] یعنی ان کا مدینہ سے خروج، بلوائیوں کے اس مجمع کو منتشر کرنے کی ایک کوشش تھی کیوں کہ یہ بات معروف تھی کہ لوگ ان کی رائے و فتویٰ کی تلاش میں ہوتے ہیں اور امہات المومنین کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ یہ لوگ اس حد کو پہنچ جائیں گے کہ خلیفہ کو قتل کر ڈالیں گے۔[3] ۴۔ صحابیات کا موقف: اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا : …اسماء بنت عمیسؓ نے بھی وہی کوشش کی جو کوشش ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کی تھی، آپ نے اپنے دونوں بیٹوں محمد بن ابی بکر اور محمد بن جعفر کو بلایا اور فرمایا: چراغ خود کو کھاتا ہے اور لوگوں کو روشنی دیتا ہے لہٰذا تم دونوں اس امر میں گناہ کے مرتکب نہ ہو، تم لوگ ایسے شخص کو تکلیف پہنچا رہے ہو جس نے تم دونوں کے بارے میں کوئی گناہ نہیں کیا ہے۔ آج جس امر کی تم کوشش کر رہے ہو، یہ کل دوسروں کے لیے ہے۔ لہٰذا تم اس سے بچو کہ تمہارا عمل تمہارے لیے کل کے دن حسرت کا سبب بنے، لیکن وہ دونوں مصر رہے اور غصہ ہو کر یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ عثمان نے جو ہمارے ساتھ کیا ہے ہم اس کو نہیں بھول سکتے اور وہ یہ کہتی رہیں: انہوں نے تمہارے ساتھ کیا کیا ہے کیا انہوں نے تمھیں اللہ کا پابند نہیں بنایا ہے۔[4] اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ گفتگو لیلیٰ بنت اسماء اور ان کے دونوں بھائیوں کے درمیان ہوئی تھی۔[5] یہاں اسماء رضی اللہ عنہا اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ جب باغی مدینہ پہنچے اور عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کے اعتراضات کے جوابات دیے اور ان پر حجت قائم کر دی تو ان لوگوں نے یہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے شہروں کو واپس جا رہے ہیں، لیکن پھر راستہ سے واپس آگئے اور یہ دعویٰ کیا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کے کچھ لوگوں کو قتل کرنے کے لیے پیغا مبر روانہ کیے ہیں اور ان کے دعویٰ کے مطابق انہی لوگوں میں سے محمد بن ابی بکر بھی تھے۔[6] شاید اسی بہتان کی طرف محمد بن ابی بکر نے اپنے اس قول میں اشارہ کیا ہے:
Flag Counter