Maktaba Wahhabi

250 - 534
بحری جنگ کی سب سے پہلی اجازت عثمان رضی اللہ عنہ نے دی: امیر شام معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما برابر عمر رضی اللہ عنہ سے بحری جنگ کی اجازت پر اصرار کرتے رہے، اور یہ بیان کرتے رہے کہ روم حمص سے انتہائی قریب ہے، اور حمص کی بعض بستیوں میں ان کے کتوں کے بھونکنے کی آواز اور مرغ کی پکار سنائی دیتی ہے۔ یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ باتیں اثر انداز ہونے لگیں، آپ نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو تحریر فرمایا: سمندر اور اس میں سفر کرنے والے سواروں کی کیفیت و تفصیل لکھ کر بھیجو، میری طبیعت اس طرف مائل ہو رہی ہے، چنانچہ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے جواب میں تحریر فرمایا: میں نے دیکھا بڑی مخلوق پر چھوٹی مخلوق سوار ہو رہی ہے، اگر وہ ٹھہر جائے تو دل پھٹ جائے، اور اگر حرکت میں آجائے تو عقلوں کو حیران کر دے، اس کے اندر یقین میں کمی آتی ہے اور شک میں اضافہ ہوتا ہے، لوگ لکڑی کے اوپر کیڑے کی طرح ہوتے ہیں، اگر مائل ہو جائے تو ڈوب جائیں اور بچ جائیں تو خوش ہو جائیں۔ جب عمر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی یہ تحریر پڑھی تو معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا: ’’سمندری جنگ کی اجازت نہیں، اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا میں کبھی کسی مسلمان کو سمندر پر سوار نہ کروں گا۔ اللہ کی قسم ایک مسلمان میرے نزدیک روم کے مال و متاع سے زیادہ محبوب ہے، خبردار اب ایسا مطالبہ مجھ سے نہ کرنا۔ میں نے تم کو پیشگی بتلا دیا، علاء کو میری طرف سے جو لاحق ہوا وہ تمھیں بخوبی معلوم ہے، حالاں کہ اس سلسلہ میں میں نے پیشگی ان سے کچھ نہیں کہا تھا۔[1] عمر رضی اللہ عنہ کے اس نظریہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ مطمئن نہ ہوئے، اور روم سے متعلق اپنی رائے پر قائم رہے اور اس کو فتح کرنے کی خواہش آپ کے اندر باقی رہی، چنانچہ جب عثمان رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں گفتگو شروع کی، اور عثمان رضی اللہ عنہ سے اس کی اجازت دینے پر اصرار کیا، عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کے جواب میں فرمایا: میں اس وقت موجود تھا، جب تم نے عمر رضی اللہ عنہ سے بحری جنگ کی اجازت طلب کی تھی اور انہوں نے اس کا تمھیں جو جواب دیا تھا۔ پھر دوبارہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو اس سلسلہ میں لکھا اور قبرص تک سمندری سفر کو آسان اور معمولی ظاہر کیا، اس کے جواب میں عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو لکھا کہ اگر تم اپنے ساتھ اپنی بیوی کو لے جاتے ہو تو اجازت ہے ورنہ نہیں۔[2] اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت دیتے ہوئے یہ شرط لگائی کہ نہ تو اس مہم کے لیے لوگوں کا انتخاب جبراً کریں گے اور نہ قرعہ کے ذریعہ سے، بلکہ لوگوں کو اختیار ہو گا کہ جو خود شریک ہونا چاہے اس کو اپنے ساتھ لے جائیں، اور اس کا خیال رکھیں۔[3]
Flag Counter