Maktaba Wahhabi

295 - 534
انتخاب خلیفہ کے لیے شوریٰ تشکیل دے دی تو اس قرآن کی حفاظت کے لیے ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے حق میں وصیت فرمائی۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں جمع قرآن کے لیے اسی نسخہ پر اعتماد کیا اور اسی سے اپنا سرکاری مصحف تیار کرایا، اور چار مشہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جو حفظ قرآن، کتابت حروف اور ادائے قراء ت اور فہم اعراب و لغت کے ماہر تھے کتابت قرآن کا حکم دیا، جن میں سے تین قریشی تھے اور ایک انصاری زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے۔ جنھوں نے عہد صدیقی میں پہلی بار عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مشورے سے قرآن جمع کیا تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ جنھیں عثمان رضی اللہ عنہ نے جمع کے لیے منتخب فرمایا تھا ان کی تعداد بارہ تھی، ان میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور قریش و انصار کے دیگر حضرات تھے۔[1] ٭ اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ عہد عثمانی میں فتوحات خلیفہ کی اجازت اور اس کے حکم سے جاری تھیں، اور فوجی قرارداد مدینہ دارالخلافہ سے صادر ہوتی تھیں، اور تمام اسلامی صوبے خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ کے تابع تھے، بلکہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت پر تمام صوبوں میں صحابہ و تابعین کا اجماع تھا، اور یہ کہ شریعت کے اہم مسائل پر خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا جاتا تھا اور مدینہ دار سنت اور فقہاء صحابہ کا مرکز تھا۔[2] عہد عثمانی میں جمع قرآن کے لیے جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ: عثمان رضی اللہ عنہ نے مہاجرین و انصار کو جمع کیا اور اس سلسلہ میں ان سے مشورہ کیا، ان میں امت کے نمائندہ افراد، ائمہ اعلام اور علماء صحابہ اور سر فہرست علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس مشکل مسئلہ کو امت کے چنندہ اور ہدایت یاب قائدین کے سامنے پیش کیا۔ اس سلسلہ میں گفتگو کی، بحث و مباحثہ ہوا، اور مختلف پہلوؤں سے اس پر غور و خوض کیا، لوگوں کے خیالات معلوم کیے اور اپنی رائے پیش کی، لوگوں نے بصراحت آپ کی رائے کو قبول کیا جس سے اہل ایمان کے دلوں میں ادنیٰ شک و شبہ بھی باقی نہیں رہا، اور کسی نے بھی اس پر نکیر نہ کی، قرآن کا معاملہ امت کے ایک ادنیٰ فرد پر مخفی نہیں رہتا چہ جائیکہ علمائے ائمہ کبار پر مخفی رہے۔[3] جمع قرآن کے سلسلہ میں عثمان رضی اللہ عنہ نے کوئی بدعت ایجاد نہ کی، بلکہ آپ سے قبل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ کام کر چکے تھے اسی طرح آپ نے یہ کام صرف اپنی ذاتی رائے سے نہیں کیا بلکہ اس سلسلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کر کے قدم بڑھایا اور آپ کے اس کام کو سب نے پسند کیا اور کہا: آپ کی رائے خوب رہی، مصاحف کے سلسلہ میں آپ نے بہت اچھا کیا۔[4]
Flag Counter