Maktaba Wahhabi

94 - 534
سکتے ہیں جب کہ وہ جانتے تھے کہ یہ حضرات اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے چنندہ لوگ تھے اور خود عمر رضی اللہ عنہ ہی نے ان کو ان کے افضل اور قدر و منزلت کی بنیاد پر امر خلافت کے لیے منتخب فرمایا تھا۔[1] اسی طرح طبقات ابن سعد کی یہ روایت کہ عمر رضی اللہ عنہ نے انصار سے کہا: ان کو ایک گھر میں تین دن کے لیے داخل کر دو، اگر سیدھے رہے تو ٹھیک ورنہ داخل ہو کر ان کی گردنیں اڑا دو۔[2]اس کی سند منقطع ہے اور اس کی سند میں ایک راوی سماک بن حرب ہے جو ضعیف ہے، اور آخری عمر میں اس کا حافظہ جاتا رہا۔[3] ۶۔ اختلاف کی صورت میں حکم: عمر رضی اللہ عنہ نے وصیت فرمائی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اس مجلس کی کارروائی میں شریک رہیں، لیکن خلافت سے متعلق ان کو کوئی اختیار نہ ہو گا، اگر ان چھ افراد میں سے تین ایک شخص کو منتخب کریں اور تین دوسرے کو، تو ایسی صورت میں عبداللہ بن عمر ( رضی اللہ عنہما ) کو حکم (فیصل) بنایا جائے اور یہ جس فریق کے حق میں فیصلہ دے دیں ان میں سے ایک کو منتخب کر لیا جائے، اور اگر لوگ عبداللہ بن عمر( رضی اللہ عنہما ) کے فیصلہ سے راضی نہ ہوں تو اس فریق کے ساتھ ہو جاؤ جس میں عبدالرحمن بن عوف ہوں، اور ان کی توصیف میں فرمایا: عبدالرحمن بن عوف بڑی اچھی رائے والے ہیں، سیدھے راستے پر قائم اور ہدایت یاب ہیں، اللہ کی طرف سے ان کی حفاظت ہوتی ہے۔ لہٰذا تم ان کی بات مانو۔[4] عمر رضی اللہ عنہ نے ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے کہا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے ذریعہ سے اسلام کو عزت بخشی، لہٰذا تم انصار میں سے پچاس افراد کو منتخب کر لو، اور انہیں مستعدد رکھو یہاں تک کہ یہ لوگ اپنے میں سے ایک شخص کو خلافت کے لیے منتخب کر لیں۔[5] اور مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے کہا: جب تم مجھے قبر میں رکھ دو تو ان لوگوں کو کسی گھر کے اندر جمع کر دینا تاکہ یہ اپنے میں سے کسی کو خلیفہ بنا لیں۔[6] ۷۔ افضل کی موجودگی میں مفضول کی ولایت کا جواز: شوریٰ کے اس واقعہ کے فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ افضل کی موجودگی میں مفضول کی ولایت جائز ہے، کیوں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے خلافت کے لیے چھ رکنی کمیٹی مقرر فرمائی، حالاں کہ آپ بخوبی جانتے تھے کہ ان میں سے
Flag Counter