Maktaba Wahhabi

188 - 534
کے لیے آنے والے حجاج کے لیے مسجد حرام تنگ پڑ گئی تھی، چنانچہ جب دوسری مرتبہ عہد عثمانی میں مسجد حرام تنگی کا شکار ہو گئی تو آپ نے مسجد سے قریب مکانات کو خرید کر مسجد حرام میں شامل کر دیا اور چاروں طرف سے ایک نیچی دیوار قائم کر دی جو قد آدم سے متجاوز نہ تھی جیسا کہ اس سے قبل عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔[1] اسی طرح گورنر اور صوبوں کے والی اپنے اپنے صوبوں میں مساجد کی تعمیر میں بیت المال سے خرچ کرتے تھے جیسا کہ اسکندریہ میں مسجد رحمت اور اصطخر میں مسجد کی تعمیر پر خرچ کیا گیا۔[2] پہلا بحری بیڑا بیت المال سے تیار کیا گیا: اسلام میں پہلے اسلامی بحری بیڑے کو عہد عثمانی میں بیت المال سے تیار کیا گیا۔ اسلامی فتوحات میں اس بیڑے کی کارکردگی کا تذکرہ فتوحات کے بیان میں ان شاء اللہ آئے گا۔[3] بندرگاہ جدہ کی تعمیر پر خرچ: ۲۶ھ میں اہل مکہ نے عثمان رضی اللہ عنہ سے گفتگو کی کہ شعیبہ جو دور جاہلیت ہی سے مکہ کی قدیم بندرگاہ تھی اس کے بجائے جدہ کو بندرگاہ بنا دیا جائے کیوں کہ یہ مکہ سے زیادہ قریب ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ بذات خود جدہ تشریف لے گئے اس کے موقع و محل کا مشاہدہ کیا اور وہاں بندرگاہ کی تعمیر کا حکم فرمایا۔ سمندر میں داخل ہو کر غسل فرمایا اور فرمایا: یہ با برکت ہے۔ اپنے ساتھیوں سے کہا: سمندر میں اتر کر غسل کریں لیکن بغیر ازار کے کوئی غسل نہ کرے۔ پھر آپ عسفان کے راستے مدینہ واپس ہوئے اور اسی وقت سے لوگوں نے شعیبہ کو ترک کر کے جدہ کو بندرگاہ بنا لیا اور آج تک یہ مکہ مکرمہ کی بندرگاہ ہے۔[4] بیت المال سے کنوؤں کی تعمیر: عہد عثمانی میں بیت المال سے جو کام انجام دیے گئے انہی میں سے مدینہ میں پینے کے پانی کے لیے کنویں کی تعمیر تھی جس کا نام بئر اریس تھا یہ مدینہ سے دو میل کے فاصلہ پر واقع تھا۔ یہ کنواں سن ۳۰ھ میں تعمیر کیا گیا۔ ایک روز عثمان رضی اللہ عنہ اس کنویں کی منڈیر پر بیٹھے اور آپ کے ہاتھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی تھی وہ انگلی سے سرک کر کنویں میں گر گئی، لوگوں نے اس کو کنویں میں تلاش کیا اور اس کا سارا پانی نکال باہر کیا لیکن انگوٹھی کا سراغ نہ لگا۔ آپ نے اس کے لیے خطیر رقم کا اعلان کیا اور اس کے نہ ملنے پر آپ کو شدید غم لا حق ہوا جب آپ اس انگوٹھی سے مایوس ہو گئے تو پھر آپ نے اسی کے مثل دوسری انگوٹھی چاندی کی تیار کرائی اور اس میں محمد رسول اللہ
Flag Counter