Maktaba Wahhabi

475 - 534
۶۔حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما : حسن بن علی رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور عرض کیا: کیا میں اپنی تلوار سونت لوں؟ فرمایا: نہیں، اگر تم نے ایسا کیا تو میں اللہ کے حضور تمہارے خون سے اپنی براء ت کا اظہار کرتا ہوں۔ تم اپنی تلوار میان میں ڈالو اور اپنے والد کے پاس چلے جاؤ۔[1] ۷۔ عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما : جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دیکھا کہ سنگین صورت حال پیدا ہو گئی ہے اور بغاوت کا سیلاب حد سے تجاوز کر چکا ہے تو بعض صحابہ نے عثمان رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیے بغیر دفاع کا عزم کر لیا اور بعض حضرات قتال کے لیے مکمل تیاری کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی انہی میں سے تھے۔ آپ تلوار لٹکائے، زرہ پہنے ہوئے عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ گھر میں تھے تاکہ آپ کے دفاع میں قتال کریں لیکن عثمان رضی اللہ عنہ نے اس خوف سے گھر سے نکل جانے کا حکم دیا کہ کہیں باغیوں کے ساتھ قتال نہ کر بیٹھیں اور پھر قتل کر دیے جائیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما دوبارہ پھر تلوار لٹکائے اور زرہ پہنے حاضر ہوئے۔[2] ۸۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ : جناب ابوہریرہ، عثمان رضی اللہ عنہما کے پاس یہ کہتے ہوئے حاضر ہوئے اے امیر المومنین! قتال اچھا ہے۔ ان سے عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابوہریرہ! کیا تمھیں یہ پسند ہے کہ تم تمام لوگوں کو اور مجھے بھی قتل کر دو؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تم نے ایک شخص کو بھی قتل کیا تو گویا تمام لوگوں کو قتل کر دیا۔ یہ سن کر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ واپس ہو گئے اور قتال نہ کیا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تلوار لٹکائے ہوئے رہے یہاں تک کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں منع کر دیا۔[3] ۹۔ سلیط بن سلیط رضی اللہ عنہ : فرماتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ہمیں باغیوں سے قتال کرنے سے منع کر دیا ورنہ ہم انہیں مار کر نکال باہر کرتے۔[4] ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ سات سو افراد گھر میں تھے اگر آپ انہیں قتال کی اجازت دیتے تو ان شاء اللہ وہ باغیوں کو مار بھگاتے۔ ان افراد میں عبداللہ بن عمر، حسن بن علی، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ نیز ابن سیرین رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ جس دن عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا گیا، آپ کا گھر صحابہ سے
Flag Counter