Maktaba Wahhabi

154 - 534
اور اعلان کیا کہ میں صبر جمیل کے ساتھ اس عظیم فتنہ کا مقابلہ کروں گا۔[1] اس طرح اس آیت کریمہ پر آپ کا مکمل عمل رہا: الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (173) (آل عمران: ۱۷۳) ’’وہ لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلہ پر لشکر جمع کر لیے ہیں تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے ان کا ایمان اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کار ساز ہے۔‘‘ عثمان رضی اللہ عنہ قوی ایمان، اعلیٰ ظرف، مؤثر بصیرت اور عظیم صبر کے مالک تھے، اور اسی وجہ سے آپ نے امت کی خاطر اپنی جان قربان کر دی، جو مسلمانوں کے نزدیک آپ کے عظیم ترین فضائل میں شمار ہوا۔[2] شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’تو اتر سے یہ بات ثابت ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ خون سے بچنے والے، اور آپ کی عزت پر انگلی اٹھانے والوں اور آپ کے خون کے پیاسے لوگوں پر سب سے زیادہ صبر کرنے والے تھے، چنانچہ جب شرپسندوں نے آپ کا محاصرہ کر لیا اور آپ کے قتل کے درپے ہو گئے اور آپ کو ان کے ارادئہ قتل کا بخوبی علم ہو گیا اور مسلمان آپ کی نصرت و تائید کے لیے پہنچے اور ان شرپسندوں سے قتال کرنے کا مشورہ دیا، تو آپ برابر انہیں قتال سے روکتے رہے، لوگوں نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ مکہ چلے جائیں تو آپ نے فرمایا: میں حرم میں الحاد کرنے والا نہیں بنوں گا۔ لوگوں نے کہا شام چلے جائیں۔ فرمایا: دار ہجرت کو نہیں چھوڑ سکتا۔ پھر آپ سے کہا گیا: تو پھر ان سے قتال کریں۔ فرمایا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کی امت میں پہلا تلوار اٹھانے والا نہیں بنوں گا، اور پھر آپ نے اس قدر صبر کیا کہ قتل کر دیے گئے، آپ کا یہ کردار آپ کے عظیم ترین فضائل میں سے قرار پایا۔‘‘[3] عدل: عثمان رضی اللہ عنہ صفت عدل سے متصف تھے، چنانچہ عبیداللہ عدی بن خیار کا بیان ہے کہ وہ عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب وہ محصور تھے، انہوں نے آپ سے عرض کیا: آپ امیر المومنین ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ نماز باغیوں کا امام پڑھاتا ہے جو ہم پر بہت گراں ہے، آپ نے جواباً فرمایا کہ نماز انسانوں کے عمل میں سب سے اچھی چیز ہے اس لیے جب لوگ اچھا کام کریں گے تو تم بھی اچھا کام کرو اور جب لوگ برا کام
Flag Counter