Maktaba Wahhabi

290 - 534
قرآن صحائف میں جمع شدہ تھا۔ ارشاد الٰہی ہے: رَسُولٌ مِنَ اللّٰهِ يَتْلُو صُحُفًا مُطَهَّرَةً (2) (البینۃ: ۲) ’’اللہ کا ایک رسول جو پاک صحائف پڑھتا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت مکمل قرآن تحریری شکل میں موجود تھا لیکن ایک جلد کے اندر جمع نہ کیا جا سکا تھا۔ کھجور کی شاخوں اور پتھروں وغیرہ پر لکھا ہوا تھا، لوگوں کے سینوں میں محفوظ تھا، سینوں اور صحائف میں محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ ہر سال رمضان میں ایک مرتبہ جبریل امین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن پیش فرماتے تھے، اور جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس سال رمضان میں دو مرتبہ پیش فرمایا۔[1] چوں کہ بعض احکام و تلاوت کے نسخ کا خطرہ لگا رہتا تھا (اور اسی طرح قرآن کا نزول بھی مرتب نہ تھا، بلکہ حالات و ضروریا ت کے مطابق کبھی کسی سورت کی چند آیات نازل ہوتیں کبھی کسی سورت کی اور کبھی آگے کی سورت اور کبھی پیچھے کی) اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کو ایک جلد کے اندر جمع نہ کرایا، لیکن جب آپ کی وفات سے قرآن کے نزول کا سلسلہ مکمل ہو گیا اور اب کسی آیت میں حکم کے منسوخ ہونے یا نازل ہونے کا موقع نہ رہا تو اللہ تعالیٰ نے خلفائے راشدین کو قرآن کو ایک جلد میں جمع کرنے کا الہام فرمایا اور قرآن کی حفاظت کا وعدہ پورا فرمایا۔[2] دوسرا مرحلہ… ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں معرکہ یمامہ میں حفاظ قرآن کی ایک کثیر تعداد نے جام شہادت نوش کیا جس کے نتیجہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قرآن کو جمع کرایا[3] اور یہ عظیم ذمہ داری آپ نے صحابی جلیل زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو سونپی، چنانچہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: معرکہ یمامہ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا، میں پہنچا تو وہاں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ موجود تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عمر میرے پاس آئے اور کہا: معرکہ یمامہ میں بہت سے قراء شہید ہو گئے ہیں، اور مجھے خوف ہے کہ اگر دوسرے معرکوں میں اسی طرح قراء ِ قرآن شہید ہوتے رہے تو قرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہو جائے گا۔ میری رائے ہے کہ آپ جمع قرآن کا حکم جاری فرمائیں۔ اس پر میں (ابوبکر رضی اللہ عنہ ) نے عمر سے کہا کہ میں ایسا کام کیسے کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟[4]
Flag Counter