Maktaba Wahhabi

272 - 534
البتہ ڈاکٹر شوقی ابو خلیل نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ یہ معرکہ اسکندریہ کے ساحل پر واقع ہوا تھا اور اس ترجیح کے مندرجہ ذیل وجوہ و اسباب ہیں: ٭ ’’النجوم الزاہرہ‘‘ میں اس بات کی صراحت ہے کہ ذات الصواری کا معرکہ اسکندریہ کی جانب سمندر میں واقع ہوا تھا۔[1] ٭ تاریخ ابن خلدون میں مذکور ہے [2] کہ پھر عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ نے افواج کو روانہ کیا اور ممالک کو زیر کیا، لوگ آپ کے تابع ہوئے پھر آپ مصر واپس ہو گئے، اور جب ابن ابی سرح رضی اللہ عنہ نے افریقہ میں فتح و نصرت حاصل کر لی اور مصر واپس ہو گئے تو قسطنطین بن ہرقل نے چھ سو کشتیوں کے ساتھ اسکندریہ کا رخ کیا۔ ٭ رومی بحری بیڑے کا اپنا شاندار ماضی رہا ہے، وہ ذات الصواری سے قبل بحر متوسط کا تاجدار رہا ہے، وہ اسلامی سواحل پر حملہ آور ہونے کی جرأ ت رکھتا تھا، اس لیے ڈاکٹر شوقی ابو خلیل نے رومی بیڑے کے اسکندریہ کے سواحل پر اس کی بازیابی کے لیے آدھمکنے کو ترجیح دی ہے، کیوں کہ اسکندریہ رومیوں کے لیے انتہائی اہم مقام رہا تھا، اور وہاں کے باشندوں نے سابق شاہ روم سے اس سلسلہ میں خط و کتابت بھی کی تھی۔ اس طرح ان کے خیال میں اس نوخیز اسلامی بحری بیڑے کا خاتمہ بھی آغاز ہی میں ہو سکتا تھا جس کو عربوں نے مصر میں تیار کرنا شروع کر دیا تھا، اور اس طرح بحر متوسط اور اس کے جزیروں پر روم کا تسلط برقرار رہ سکتا تھا۔ ٭ خارجی مراجع ذات الصواری کا مقام ’’فونیکہ‘‘ کو قرار دیتے ہیں جو اسکندریہ کے مغرب میں ’’مرسی مطروح‘‘ شہر کے قریب واقع ہے اس طرح یہ مراجع ذات الصواری کے محل و مقام کی مکمل تحدید کرتے ہیں۔[3] معرکہ کی تفصیلات: مالک بن اوس بن حدثان کا بیان ہے: میں ذات الصواری میں اسلامی فوج کے ساتھ شریک تھا۔ سمندر میں ہماری دشمن سے مڈبھیڑ ہوئی، ہم نے اس سے قبل اتنی کثیر تعداد میں کشتیاں نہ دیکھی تھیں، ہوا کا رخ بھی ہمارے خلاف اور رومی کشتیوں کے موافق تھا، ہم کچھ ساعت لنگر انداز رہے، اور دشمن بھی ہمارے قریب لنگر انداز ہو گیا، ہم نے رومیوں سے کہا: ہمارے اور تمہارے درمیان امن و امان رہے گا انہوں نے کہا یہ ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے۔[4] پھر مسلمانوں نے رومیوں سے یہ مطالبہ کیا کہ اگر تم چاہو تو ہم
Flag Counter