Maktaba Wahhabi

520 - 534
حسن بن علی رضی اللہ عنہما : طلق بن خشاف سے روایت ہے کہ ہم مدینہ گئے، ہمارے ساتھ قرط بن خیثمہ تھے ہم حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے ملے، آپ سے قرط نے کہا: امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کو کیوں شہید کیا گیا؟ فرمایا: مظلوم شہید ہوئے۔[1] سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ : یزید بن ابی عبیدہ سے روایت ہے کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ جو بدری صحابی ہیں، مدینہ چھوڑ کر ربذہ چلے گئے اور موت سے کچھ دن قبل تک وہیں رہے۔[2] عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما : ابو حازم سے روایت ہے کہ میں عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے پاس تھا آپ نے عثمان رضی اللہ عنہ کا تذکرہ فرمایا، آپ کے فضائل و مناقب اور قرابت کا ذکر اس طرح کیا کہ وہ شیشہ سے بھی صاف و ستھرا تھا پھر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا، آپ کے فضائل و سبقت و قرابت کا ذکر اس طرح کیا کہ وہ شیشہ سے بھی صاف و ستھرا تھا۔ پھر فرمایا جو شخص ان دونوں کا تذکرہ کرے اس کو اس طرح ان کا تذکرہ کرنا چاہیے ورنہ نہ کرے۔[3]عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: عثمان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا نہ کہو، ہم انہیں اپنے بہترین لوگوں میں شمار کرتے تھے۔[4] دوسرے فتنوں کے برپا ہونے میں شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کا اثر شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کا فتنہ دوسرے بہت سے فتنوں کے برپا ہونے کا سبب ثابت ہوا اور اس کا پر تو ان فتنوں پر پڑا جو اس کے بعد پیدا ہوئے۔ لوگوں کے دل بدل گئے، جھوٹ عام ہوا، عقیدہ و شریعت میں اسلام سے انحراف کا آغاز ہوا۔[5] عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت لوگوں کے درمیان فتنوں کے برپا ہونے میں عظیم ترین سبب قرار پائی، اور اس کے سبب سے امت آج تک افتراق و اختلاف کا شکار ہے۔[6] دلوں میں افتراق رونما ہوا، بڑی مصیبتیں ہوئیں، شرپسند غالب آئے خیر پسند ذلیل ہوئے، فتنہ میں ان لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جو اس سے عاجز تھے، اور خیر و اصلاح سے وہ لوگ عاجز آگئے جن کی فطرت و عادت خیر و فلاح کی آماجگاہ تھی۔ لوگوں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بیعت کی آپ اس وقت خلافت کے سبب سے زیادہ مستحق تھے اور جو باقی تھے ان میں افضل تھے، لیکن دلوں
Flag Counter