Maktaba Wahhabi

209 - 534
کہ اس وقت ان حالات میں نماز کو مکمل پڑھنا اور قصر نہ کرنا ہی بہتر تھا کیوں کہ ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد صدیقی و فاروقی میں نہ تھے جن کی وجہ سے عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ خوف لاحق ہوا کہ لوگ نماز کے سلسلہ میں فتنہ میں مبتلا ہو جائیں گے خاص کر جاہل وگنوار اور جو دور دراز علاقوں کے رہنے والے تھے اور اہل علم وہاں تک نہیں پہنچ پاتے تھے جو انہیں احکام و مسائل کی تعلیم دیں لہٰذا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس شر کا دروازہ بند کر دینا چاہا اور آپ نے اپنے سلسلہ میں شبہ کے ازالہ کے لیے کوئی دقیقہ نہ چھوڑا۔ فرمایا ان کی بیوی مکہ کی ہیں اور طائف میں ان کی جائداد ہے بسا اوقات ایام حج ختم ہونے کے بعد وہاں وہ ٹھہر سکتے ہیں ایسی صورت میں مقیم ہوں گے لہٰذا ان پر اتمام فرض ہو گا ان کی یہ دقت نظر شریعت کے اسرار و حکم کے دقیق فہم کا نتیجہ تھی۔[1] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سفر میں اتمام صلاۃ کی قائل رہی ہے جن میں ام المومنین عائشہ، عثمان، سلمان اور دیگر چودہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔[2] عثمان رضی اللہ عنہ سفر میں قصر کے وجوب کے قائل نہ تھے آپ کا وہی موقف تھا جو بعد میں فقہاء مدینہ اور امام مالک و شافعی وغیرہم رحمہم اللہ نے اختیار کیا ہے اور پھر یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اسی لیے اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف رہا ہے لہٰذا اس کی وجہ سے کفر یا فسق لازم نہیں آتا۔[3] رہا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ ’’اختلاف شر ہے‘‘[4] اوردوسری روایت میں ’’میں اختلاف کو ناپسند کرتا ہوں‘‘[5]تو اس کے اندر ہمارے لیے یہ رہنمائی اور تذکیر ہے کہ اجتہادی مسائل میں اختلاف سے اجتناب بہتر ہے، اور مسلمان کے لیے یہ بہتر ہے کہ وہ اس کو ذہن میں رکھے اور مختلف فیہ فروعی مسائل میں جنگ و جدال کو کم کرنے کی کوشش کرے۔[6] کیوں کہ جن حالات سے امت اسلامیہ دوچار ہے ان حالات میں جدل و اختلاف میں قیمتی اوقات کو ضائع کرنا اور خطر ناک چیلنج کو نظر انداز کرنا مناسب نہیں۔[7] عبداللہ بن مسعود اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کے طرز عمل سے یہ بات آشکارا ہو جاتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وحدت ملت کے انتہائی حریص تھے۔ ۲۔جمعہ کے دن دوسری اذان کا اضافہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی۔))[8]
Flag Counter