Maktaba Wahhabi

215 - 534
ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ہاں جا سکتی ہو، میں لوٹ پڑی ابھی میں حجرہ ہی میں تھی کہ آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا: تم نے کیسے کہا؟ میں نے اپنے شوہر سے متعلق پورا قصہ دوبارہ بیان کیا، تو آپ نے فرمایا: عدت پوری ہونے تک اپنے گھر میں ٹھہری رہو، لہٰذا میں نے وہاں چار ماہ دس دن گزارے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں مجھے بلایا اور اس سلسلہ میں سوال کیا، میں نے آپ کو خبر دی تو آپ نے اس کی پیروی کی اور اس کے مطابق فیصلہ کیا۔[1] اسی لیے عثمان رضی اللہ عنہ عدت وفات میں رات گزارنے کے سلسلہ میں سختی سے حکم دیتے تھے آپ کے دور میں واقعہ پیش آیا کہ ایک خاتون کے شوہر کا انتقال ہو گیا وہ عدت کے دوران میکے چلی گئی اور وہاں دردزہ شروع ہو گیا تو آپ نے حکم فرمایا کہ اس کو اسی حالت میں لاد کر اس کے گھر واپس لایا جائے۔[2] ۱۷۔ صرف رغبت کی شادی کرو: ایک شخص عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب کہ آپ سوار ہو کر کسی مہم پر جا رہے تھے، اس نے عرض کیا: امیر المومنین! میں آپ کی خدمت میں ایک ضرورت کے تحت حاضر ہوا ہوں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اس وقت جلدی میں ہوں اگرچاہو تو میرے پیچھے سوار ہو جاؤ اور اپنی ضرورت بیان کرو۔ اس نے عرض کیا: میرا ایک پڑوسی ہے اس نے غصہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے اور اب سخت پریشانی میں مبتلا ہو گیا ہے۔ اس کی حالت دیکھ کر میرا یہ ارادہ ہے کہ اپنی جان و مال کے ذریعہ سے نیکی کماؤں بایں طور کہ میں اس سے شادی کر لوں اور رات گزار کر طلاق دے دوں اور پھر وہ اپنے پہلے شوہر کی زوجیت سے منسلک ہو جائے؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایسا مت کرو صرف رغبت کی شادی کرو۔[3] ۱۸۔ مدہوش کی طلاق: عثمان رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ مدہوش شخص کی باتوں کا اعتبار نہیں اس لیے اس کے عقد و فسخ اور اقرار کا اعتبار نہیں، اس کی طلاق واقع نہ ہو گی کیوں کہ وہ جو کہتا ہے اس کو سمجھتا نہیں اور جو کہتا ہے بلا قصد و ارادہ کہتا ہے اور بلاقصد و ارادہ کوئی چیز لازم نہیں آتی [4] عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مدہوش اور مجنون کی طلاق کا اعتبار نہیں۔[5]
Flag Counter