Maktaba Wahhabi

68 - 534
خدمت میں پیش کر دیا۔ اس روایت میں باقی حصہ گزشتہ روایت کی طرح ہے۔[1] عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کتابت کرتا تھا، لیکن شیطان نے اس کو بہکایا اور کفار سے جا ملا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر اس کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ لیکن جب عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے پناہ طلب کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ دے دی۔[2] ابن اسحاق عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کے قتل سے متعلق فرمان نبوی اور عثمان رضی اللہ عنہ کی سفارش کا سبب بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کا فرمان اس لیے جاری کیا تھا کہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی لکھنے پر مامور تھا پھر یہ مرتد ہو کر قریش کے پاس واپس چلا گیا، اور چوں کہ عثمان رضی اللہ عنہ اس کے رضاعی بھائی لگتے تھے اس لیے فتح مکہ کے موقع پر ان کے پاس جا کر چھپ گیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنے پاس رکھا اور جب مکہ میں امن وامان بحال ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر کے اس کے لیے امان طلب کی۔ ابن ہشام کا بیان ہے کہ پھر اس کے بعد یہ دوبارہ اسلام لے آئے، اور عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اپنے بعض عمال پر انہیں والی مقرر کیا، اور عمر رضی اللہ عنہ کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں والی مقرر فرمایا۔[3] ۷۔غزؤہ تبوک: ۹ھ میں ہر قل نے اپنا سازشی رخ جزیرہ عرب کی طرف اس کو ہڑپنے اور اس پر عدوان و سرکشی کے برے ارادے سے پھیرا، اور اپنی فوج کو تیاری کرنے اور حملہ کے لیے اس کے فرمان کے انتظار کا حکم جاری کیا، یہ خبریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں پہنچیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جہاد کی تیاری کا حکم فرمایا۔ سخت گرمی کا موسم تھا، جس میں پہاڑ بھی پگھل جائیں، اور ملک میں سخت خشک سالی تھی، اگر مسلمان ایمان کی قوت سے مہلک گرمی کا مقابلہ کرتے ہوئے دہکتے ہوئے صحرا پر سے گزرتے ہوئے جہاد کے لیے نکل پڑیں تو سامان جنگ اور جہاد کے اخراجات کہاں سے آئیں؟ ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو چندہ پر ابھارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک نے اپنی وسعت بھر حصہ لیا اور چندہ جمع کیا۔ خواتین نے اپنے زیورات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جہاد کے لیے پیش کیے، لیکن جو کچھ جمع ہوا ضروریات جہاد کے لیے کافی نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی لمبی قطار پر نظر دوڑائی جو جذبہ جہاد سے سر شار تھے، اور فرمایا: کون ہے جو انہیں سامان جنگ فراہم کرے اور اللہ کی مغفرت حاصل کرے؟
Flag Counter