Maktaba Wahhabi

127 - 534
اس خط کے اندر ہم دیکھتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے امت کے عام لوگوں کو اتباع سنت کی طرف رغبت دلائی اور تکلف اور ابتداع سے منع فرمایا اور انہیں اس بات سے متنبہ فرمایا کہ جب تین چیزیں ان میں جمع ہو جائیں تو حالات میں تبدیلی رونما ہو گی: ۱۔ نعمتوں کی فراوانی کہ اس سے نفس میں کبر و غرور جنم لیتا ہے اور اس کو آسائش و آرام پسند بنا دیتی ہے، محنت و عمل سے روک کر فراغ اور سستی کا شکار کر دیتی ہے، اس کی قوت کمزور ہو جاتی ہے اور عزائم سرد پڑ جاتے ہیں۔ ۲۔ جنگی قیدی خواتین سے اولاد کا بلوغت کو پہنچنا، اسلامی معاشرہ میں سیاسی، اجتماعی، دینی پہلو سے ان کے اثرات پر اسلامی تاریخ کے صفحات شاہد ہیں۔ ۳۔ عجم اور دیہاتیوں کا قرآن پڑھنا۔ عثمان رضی اللہ عنہ کا اس سے مقصود یہ ہے کہ چوں کہ دیہاتیوں کی طبیعت میں کٹھور پن اور سختی ہوتی ہے اس لیے قرآنی ہدایت ان کے دلوں میں خیر کا مقام نہیں پاتی، اور اسی طرح عجم کے اندر جو موروثی اخلاق، عقائد اور قدیم عادات گھر کر چکے ہوتے ہیں جو ان کے اور قرآنی طریقہ ہدایت کے درمیان دوری پیدا کرتے ہیں۔ دیہاتیوں کا یہ اثر فرقہ خوارج میں نمایاں ہوا جن کی اکثریت کٹھور طبیعت کی تھی اور سخت قسم کے لوگ تھے، لوگوں میں سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والے تھے، لیکن اسی طرح قرآنی ہدایت سے بھی اتنا ہی دور تھے، پھر ان کے علاوہ عجم کا اثر ان کے مبتدعانہ مذاہب اور متکلف فیہ آراء میں ظاہر ہوئے جو مسلمانوں کے عقائد میں خالص برائی کی شکل میں ثابت ہوا اور انہی میں اکثر گمراہ فرقے وجود پذیر ہوئے جنھوں نے اسلامی تاریخ میں انتہائی خطر ناک کردار ادا کیا۔[1] حکومت کا اصل ماخذ و مصدر ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے یہ اعلان کیا کہ ان کی حکومت کا اصل ماخذ کتاب و سنت اور شیخین ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی اقتداء ہے، چنانچہ آپ نے فرمایا: خبردار ہو جاؤ، میں بدعتی نہیں بلکہ متبع ہوں، آگاہ ہو تمہارے لیے کتاب و سنت کے بعد تین حقوق ہیں: اول یہ ہے کہ میں ان کی اتباع کروں جو مجھ سے پہلے گزرے ہیں اور جس پر تم نے اجماع کیا ہے اور جو تم نے طریقہ متعین کیا ہے۔[2] اولین مصدر و ماخذ کتاب اللہ ہے: ارشاد ربانی ہے: إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللّٰهُ وَلَا تَكُنْ
Flag Counter