Maktaba Wahhabi

360 - 534
سعید بن العاص رضی اللہ عنہ انتہائی حکیم اور دانا انسان تھے۔ فرماتے ہیں: ’’میرے ہم نشین کے میرے اوپر تین حقوق عائد ہوتے ہیں: جب وہ میرے قریب آئے تو اس کو خوش آمدید کہوں، اور جب وہ بیٹھے تو اس کے لیے جگہ کشادہ کروں، اور جب گفتگو کرے تو اس کی طرف متوجہ ہوں۔‘‘ اور اپنے بیٹے سے فرمایا: ’’میرے لخت جگر بغیر سوال کے اللہ کے لیے بھلائی کرو اور جب تمہارے پاس انسان حاضر ہو اور اس کے چہرے پر خون دوڑ رہا ہو یا وہ اس حالت میں آئے کہ اس کو خطرہ ہو اور اسے معلوم نہیں کہ تم اسے دیتے ہو یا نہیں، اس حالت میں اللہ کی قسم اگر تم اپنا سارا مال اسے دے دو تب بھی اس کو پورا بدلہ نہ دیا۔‘‘ نیز فرمایا:’’ میرے بیٹے! شریف انسان سے مذاق نہ کرنا وہ تم سے کینہ رکھنا شروع کر دے گا، اور نہ کسی کم تر شخص سے مذاق کرنا تم اس کی نگاہوں سے گر جائو گے۔‘‘ ایک دن ایک عابدہ و زاہدہ خاتون کوفہ کی امارت کے دور میں ان کے پاس آئی، آپ نے اس کے ساتھ داد و دہش کی اور اچھا سلوک کیا تو اس خاتون نے آپ کو دعا دیتے ہوئے کہا: ’’اللہ کرے کسی کمینہ سے آپ کو ضرورت نہ پڑے، اور شریفوں کی گردن پر ہمیشہ احسان رہے، اور اللہ جب کسی شریف سے کوئی نعمت زائل کر دے تو آپ کو اس نعمت کو اس کی طرف واپس کرنے کا سبب بنائے۔‘‘ اور جب سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت آیا تو اپنے تمام بیٹوں کو جمع کیا اور فرمایا: ’’میرے ساتھی میرے علاوہ کسی چیز کو گم نہ پائیں، میں ان کے ساتھ جو سلوک کرتا ہوں تم برابر کرتے رہنا، جو میں انہیں دیتا ہوں تم برابر انہیں دیتے رہنا، انہیں مانگنے کی زحمت نہ اٹھانا پڑے، کیوں کہ انسان جب کسی سے کوئی چیز طلب کرتا ہے تو اس خوف سے کہ کہیں اس کی بات رد نہ کر دی جائے، اس کے اعضاء مضطرب ہو جاتے ہیں اور اس کے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ اللہ کی قسم ایک شخص اپنے بستر پر تڑپ رہا ہو اور وہ تمھیں اس لائق سمجھ رہا ہے کہ تم اس کی ضرورت پوری کر سکتے ہو تو یہ اس کا تمہارے اوپر تمہارے مطلوبہ چیز دینے سے زیادہ احسان ہے۔‘‘ اس کے بعد اور بہت سی وصیتیں کیں۔ آپ کی وفات ۵۸ھ میں ہوئی، اسی طرح ۵۷ھ اور ۵۹ھ کی بھی روایت ہے۔[1] عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ : سلسلہ نسب: عبداللہ بن سعد بن ابی سرح بن حارث بن حبیب بن حذافہ بن مالک بن حِسْل بن عامر بن لوی القرشی العامری۔[2] مؤرخین عام طور سے جب عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ اور عہد عثمانی میں مصر پر ان کے گورنر بنائے جانے کا تذکرہ کرتے ہیں تو خاص کر یہ عبارت استعمال کرتے ہیں: ’’عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے رضاعی بھائی عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو مصر کا گورنر مقرر کیا۔‘‘[3]
Flag Counter