Maktaba Wahhabi

189 - 534
کندہ کرایا اور اس کو پہنا وہ برابر آپ کی انگلی میں رہی یہاں تک کہ آپ نے جام شہادت نوش کیا، شہادت کے بعد وہ انگوٹھی ضائع ہو گئی اور نامعلوم کس نے اس کو لے لیا۔[1] بیت المال سے مؤذنوں پر خرچ: عثمان رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ ہیں جنھوں نے بیت المال سے مؤذنوں کا وظیفہ مقرر فرمایا: امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہدایت کے امام عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے مؤذنوں کا وظیفہ جاری فرمایا۔‘‘[2] عثمان رضی اللہ عنہ نے اذان پر وظیفہ مقرر کیا، اجرت نہیں۔[3] اسلام کے بلند مقاصد و اہداف پر خرچ: بیت المال سے سابقہ عام اخراجات کے مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ ملک کے انتظام و انصرام اور رعایا کے مصالح پر خرچ کے علاوہ اسلامی سلطنت کے مقاصد و اہداف کی تمویل میں بیت المال کا اہم کردار رہا ہے۔ پھر اسلام کی نشر و اشاعت پر خرچ کیا گیا تاکہ اللہ کا کلمہ ہی بلند رہے۔ اسلامی سلطنت کے لیے اس سے پہلا بحری بیڑا تیار کیا گیا۔ بیت اللہ اور مساجد کی تعمیر و تجدید پر خرچ کیا گیا۔ مؤذنوں، گورنروں، قاضیوں، فوج اور حکومت کے عاملین کے وظائف مقرر کیے گئے، سفر حج اور غلاف کعبہ پر خرچ کیا گیا، جو اسلام و مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ اسی طرح بیت المال کی رقم سے کنویں تعمیر کرا کے پینے کے پانی کا انتظام کیا گیا تاکہ اسلامی سلطنت کے باشندے آتے جاتے وقت اس سے پانی نوش کریں۔ زکوٰۃ و خمس اور مال غنیمت جیسے حکومت کے ذرائع آمدنی سے مسلم معاشرہ کے کمزور طبقے فقراء و مساکین اور یتامیٰ سے تعاون کیا گیا اور غریب الدیار اور مسافروں کی مدد کی گئی، غلاموں کی گردنیں آزاد کرائی گئیں۔[4] ۱۰۔ عہد عثمانی میں عطیات کے نظام کا باقی و برقرار رہنا عہد عثمانی میں عطیات کا نظام جاری رہا، جیسا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں جاری تھا، عطیات سے متعلق دین میں سبقت کو اساس قرار دیا اور کوفہ پر مقرر اپنے گورنر کو لکھا: ’’اما بعد! اس ملک کے فاتحین میں سابقین کو فوقیت دو اور ان کے بعد جنھوں نے یہاں نزول کیا ہے انہیں ان کے تابع رکھو الا یہ کہ وہ حق سے سست پڑ گئے ہوں اور حق چھوڑ بیٹھے ہوں اور بعد والے اس کو سنبھال لیے ہوں۔ ہر ایک کے مقام و مرتبہ کی حفاظت کرو اور سب کے حقوق ادا کرو، لوگوں کی
Flag Counter