Maktaba Wahhabi

421 - 534
وہ یہ تو جانتے ہیں کہ عیسیٰ ( علیہ السلام ) قرب قیامت میں دنیا میں لوٹ کر آئیں گے، لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رجعت کی تکذیب کرتے ہیں، حالاں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ (القصص: ۸۵) ’’جس اللہ نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے وہ آپ کو دوبارہ پہلی جگہ لانے والا ہے۔‘‘ لہٰذا محمد صلی اللہ علیہ وسلم عیسیٰ علیہ السلام کی بہ نسبت رجعت کے زیادہ حقدار ہیں۔[1] اسی طرح اس نے دوسرے قیاس فاسد کا سہارا لیا اور علی رضی اللہ عنہ کے لیے وصیت کے اثبات کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا: ’’ہزار انبیاء گزرے ہیں اور ہر نبی نے اپنا ایک وصی چھوڑا ہے، اور علی رضی اللہ عنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں۔‘‘ نیز کہا: ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں، اور علی رضی اللہ عنہ خاتم الاوصیاء ہیں۔‘‘[2] جب اس کے متبعین کے اندر یہ چیزیں جاگزیں ہو گئیں تو وہ اپنے منصوبہ ومقصد کی طرف آگے بڑھا اور وہ مقصد عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کا تھا اور یہ بعض لوگوں کی خواہشات کے عین موافق ثابت ہوا۔ اس نے لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ بھلا بتاؤ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کو نافذ نہ ہونے دے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی کی کرسی پر کود کر بیٹھ جائے، اور خلافت کو اپنے ہاتھ میں لے لے؟ پھر یہ کہنا شروع کیا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے بغیر حق کے خلافت لی ہے، ان کا یہ حق نہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی موجود ہیں، لہٰذا تم اس سلسلہ میں اٹھو اور ان کو حرکت دلاؤ، اپنے امراء و افسران پر طعن و تنقید شروع کرو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ظاہر کرو، لوگوں کو اپنی طرف مائل کرو اور انہیں اس کی دعوت دو۔[3] عبداللہ بن سبا نے اپنے داعیان کو پوری خلافت میں پھیلا دیا، اور صوبوں کے ان حضرات سے خط و کتابت شروع کی جن کے دل و دماغ کو اپنے زہر سے مسموم کر چکا تھا، پھر ان سب نے خاموش دعوت شروع کی، اور
Flag Counter