Maktaba Wahhabi

64 - 413
ہو۔‘‘ اس لیے علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ کی مکمل عبارت کا انتساب علامہ المنذری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف قطعاً صحیح نہیں۔ مزید افسوس ناک بات یہ ہے کہ مولانا موصوف نے اس پر غورہی نہیں کیا کہ علامہ المنذری رحمۃ اللہ علیہ 656ھ میں فوت ہوتے ہیں جب کہ ایک عرصہ بعد علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ 676ھ میں فوت ہوئے ہیں اوران کا سن پیدائش 631ھ ہے گویا علامہ المنذری رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پر ان کی کل عمر 25سال تھی اس لیے علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ کا علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرنا ہی محلِ نظر ہے۔ 2. ’قال النووی‘ کے بعد آخر تک علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کا کلام ہے اور ’انتھی‘ سے علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کا اختتام مراد ہے نہ کہ علامہ المنذری رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کا۔ بلاشبہ یہ بات علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کہی ہے، مگر شیخ ابو غدہ نے فرمایا ہے کہ ان کا یہ قول درست نہیں خود انھوں نے فرمایا ہے کہ امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ ایسی روایات پر سکوت کرتے ہیں جو ظاہراً ضعیف ہیں۔ اس لیے علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کا ابو الاحوص کو مجہول کہنے کے باوجود امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کے سکوت سے اس کے حسن ہونے پر استدلال کرناان کے کلام میں تناقض ہے۔ جس کی طرف ہمارے شیخ الکوثری نے اشارہ کیا ہے۔[1] بلکہ خود حضرت موصوف نے حدیث’لکل سھو سجدتان‘ کوامام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کے ضعیف نہ کہنے کی بنا پر حسن قرار دیا ہے،مگر حاشیہ میں علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کی شرح مسلم سے یہ بھی نقل کیا کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔[2] اگر علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں یہ قاعدہ مسلمہ ہوتا تو وہ اسے ضعیف قرار دیتے؟ بلکہ علامہ المنذری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس پر نقد کیا ہے۔[3] اوپر ہم نے ذکر کیا ہے ابو الاحوص اور محمد بن یزید جیسے مجہول راویوں کی روایت کے بارے میں فرمایا گیا کہ امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر سکوت کیا ہے لہٰذا یہ امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ کے
Flag Counter