Maktaba Wahhabi

219 - 413
ہے۔[1] علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر اما م شعبہ رحمۃ اللہ علیہ ، دحیم رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کی توثیق نقل کرنے کے باوجود اسے قابل استشہادہی قرار دیا ہے چنانچہ ان کے الفاظ ہیں: ((أقل أحوال مثل ھذا أن یستشھد بہ)) [2] ’’اس جیسے راوی کی کم سے کم حالت یہ ہے کہ اس سے استشہاد کیا جائے۔‘‘ اس لیے مولانا صاحب نے جو سعید بن بشیر کی اس حدیث کو حسن اور قابلِ استدلال قرار دیا ہے قطعاً درست نہیں۔ علاوہ ازیں سند میں قتادہ مدلس ہے اور روایت معنعن ہے۔ مولانا صاحب نے جابجا فرمایا ہے کہ تدلیس ہمارے ہاں کوئی عیب نہیں۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو مگر محدثین کے ہاں یہ عیب ہے اور قتادۃ کے بارے میں تو علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: ’ھو إمام فی التدلیس‘ ’’وہ تدلیس میں امام ہے۔‘‘[3] علامہ ماردینی رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد مقامات پر قتادہ کی تدلیس پر اعتراض کیا ہے۔[4] علامہ عینی بھی قتادہ کی تدلیس کو عیب سمجھتے ہیں۔[5] امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ بھی اس کے عنعنہ کو انقطاع کا سبب قرار دیتے ہیں۔[6] کیا یہ حضرات احناف کے اکابر نہیں؟ یاا نھیں اپنے اصول کا علم نہیں؟ لہٰذا جب یہاں قتادہ معنعن روایت کرتے ہیں تو اس کی روایت حسن اور قابلِ استدلال کیونکر ہو سکتی ہے؟ مگر مولانا عثمانی کے فیصلے دیگر احناف کے برعکس ہیں کیونکہ ان کی ایک مجبوری ہے جو جگہ بہ جگہ عیاں ہو رہی ہے۔ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ اور سعید بن بشیر یہاں اس بات کی وضاحت بھی یقینا فائدہ سے خالی نہیں کہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے سعید بن بشیر کی ایک روایت نقل کر کے، اسے صحیح الاسناد قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: ((سعید بن بشیر إمام أھل الشام فی عصرہ إلا أن الشیخین لم
Flag Counter