Maktaba Wahhabi

286 - 413
مدلس ہونے اور بغیر صراحت سماع اس کی روایت قبول نہ کرنے میں کوئی شک وریب نہیں بلکہ جلد آٹھ[1] میں بذل المجہود [2]کے حوالے سے بھی لکھتے ہیں: حجاج مدلس ہے۔ مگراوپر کی عبارت [3] میں اس کی تدلیس کے دفاع میں جو کچھ فرمایا ہے وہ اس لیے کہ روایت ابن ابی شیبہ کی تھی ۔وہاں مدلس کی روایت کے ردوقبول کو’’مختلف فیہ‘‘ کے اصول کا سہارا لیکر حسن قرار دیا۔ حالانکہ پہلے وہ صاف لفظوں میں حجاج بن أرطاۃ کے عنعنہ کو قبول نہیں کرتے۔ جس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ’’مختلف فیہ‘‘ کے اس اصول میں کتنی بے اصولی کو روا رکھا گیا ہے۔اور جلد اول[4] میں روایت مسند امام احمد کی تھی تو وہاں حجاج کے عنعنہ کے باوصف علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے اس قاعدہ کا سہارا لے لیا کہ ’’مسند احمد کی تمام روایات مقبول ہیں۔‘‘ بتلائیے خود غرضی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے؟ ہم پہلے بتکرار عرض کر آئے ہیں ’’اعلاء السنن‘‘ کا مقصد حدیث کی خدمت سے زیادہ حنفی مسلک کا دفاع ہے اور اس کے لیے جس قسم کا ہو سکتا ہے سہارا ڈھونڈا جائے اگر چہ وہ بیت عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہو۔ جہاں تلک علامہ سیوطی کے ذکر کیے ہوئے قاعدہ کا تعلق ہے تو اس کی وضاحت ہم پہلے کر آئے ہیں۔ مختلف فیہ کی ایک اور مثال مولانا صاحب نے ’الاختلاف لایضر‘یا ’’مختلف فیہ‘‘ حسن روایت ہے اور ایسا راوی بھی حسن درجہ کا ہے ، کا جہاں جہاں سہارا لیا اس کی ایک اور دلچسپ مثال دیکھئے۔ کتاب الجنائز، باب استحباب نصب اللبن علی اللحد کے تحت حاشیہ میں مولانا احمد حسن رحمۃ اللہ علیہ صاحبِ احیاء السنن کا علامہ ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ پر یہ اعتراض ذکر کیا ہے کہ انھوں نے ابن ابی شیبہ کی جس روایت پر اعتماد کیا ہے، وہ ثابت نہیں،مروان بن معاویہ رحمۃ اللہ علیہ مدلس ہے اس کے جواب میں فرمایاگیا ہے کہ مروان بن معاویہ تیسرے طبقے کا مدلس راوی ہے اور حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس طبقے کے مدلسین کے بارے میں فرمایا ہے: ائمہ کرام ان کی
Flag Counter