Maktaba Wahhabi

74 - 413
ہے جس کی حقیقت ابکار المنن[1] میں دیکھی جاسکتی ہے ،بلکہ علامہ نیموی نے یہاں یہ بھی کہا تھا کہ خالد اور سلیط کے مابین محمد بن اسحاق ہے محدث مبارک پوری فرماتے ہیں: ((ادعاء محض لا دلیل علیہ بل ھو عندی کذب صریح ومن یدعی صدقہ فعلیہ الدلیل)) [2] ’’یہ محض دعوی ہے جس پر کوئی دلیل نہیں،بلکہ یہ میرے نزدیک صریح جھوٹ ہے جو اس کے صدق کا مدعی ہو وہ دلیل دے۔‘‘ علامہ نیموی کے فرزندِ ارجمند مولانا عبد الرشید فوقانی نے القول الحسن میں اپنے والدِ محترم کے داغ دھونے کی بڑی کوشش کی،مگر وہ بھی اس’’کذب صریح‘‘ کا داغ دور نہ کر سکے۔ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کا سکوت مولانا عثمانی نے مظان صحیح یا حسن میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ جس روایت پر حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں سکوت کریں وہ ان کے نزدیک صحیح یا حسن ہوتی ہے جیسا کہ مقدمہ فتح الباری[3] میں انھوں نے ذکر کیا ہے۔ یہ اصول انھوں نے قواعد علوم الحدیث[4] اور اعلاء السنن میں بھی کئی مقامات پر ذکر کیا ہے۔[5] ایک مقام پر فتح الباری سے بحوالہ مسند احمد حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں اور حاشیہ میں مجمع الزوائد[6] کے حوالے سے نقل کرتے ہیں اس کا ایک راوی ہے جس کا نام نہیں لیاگیا مگر فرماتے ہیں: حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر سکوت کیاہے اس لیے یہ ان کے نزدیک صحیح یا حسن ہونے کا مشعر ہے۔[7] اسی طرح ایک اورمقام میں دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک حدیث ہے جس میں ذکر ہے کہ ہجرت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو لکھا تھا کہ جمعہ کے روز اپنی عورتوں اور بچوں کو جمع کر کے زوال آفتاب کے بعد دور کعتیں پڑھو۔ یہ روایت
Flag Counter