Maktaba Wahhabi

48 - 413
عن دراج عن أبی الھیثم عن أبی سعید‘کی سند سے حدیث[1] نقل کی ہے اور اسے’’حسن غریب‘‘ کہا ہے۔ اسی سند سے یہی روایت قبل ازیں ((باب ما جاء فی صفۃ ثیاب أھل الجنۃ)) میں بھی ذکر کی ہے۔[2] اور اس میں صرف غریب کہا ہے اور خود انھوں نے ایک مقام پرفرمایا: رشدین ھو ضعیف عند أھل الحدیث[3] اور یہی بات انھوں نے دیگر مقامات میں کہی ہے۔[4] غور فرمائیے کہ رشدین کو ضعیف کہنے کے باوجود درج بالاروایت کو حسن قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ انھوں نے ایسی روایات کو شواہد کی بنا پر ہی حسن کہا ہے۔لیکن مولانا صاحب کا اس کے برعکس موقف آپ کے سامنے ہے۔ ہم نے یہ چند روایات وضاحت کے لیے ذکر کی ہیں اسے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی خاص اصطلاح کہیں یا تساہل، اسے معروف معنوں میں حسن کہنا درست نہیں۔ مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ جب امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے اس تساہل کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر ان کا مدلس منقطع، مجہول اور ضعیف راویوں کی احادیث کو حسن کہنا ان کے فی الواقع حسن ہونے اور ان کے متصل ہونے یا ان کے راویوں کے ثقہ ہونے کی دلیل کیونکر ہے؟ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی فاتحہ خلف الامام کی روایت کو حسن قرار دیا ہے۔ اور وہ اس میں منفرد بھی نہیں۔ ملاحظہ ہو ترمذی مع التحفہ۔[5] مگر اس کے باوجود یہ روایت مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مضطرب وضعیف ہے۔[6] بتلائیے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی تحسین کے باوجود اضطراب اور ضعف کا دعویٰ چہ معنیٰ دارد؟ حدیث سے مجتہد کا استدلال مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اصول یہ بھی ذکر کیا ہے کہ ((والمجتھد إذا استدل بحدیث کان تصحیحاً لہ))[7]
Flag Counter