Maktaba Wahhabi

378 - 413
’’ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کا جواب یہ ہے کہ وہ ضعیف ہے اس میں ایوب بن نھیک منکر الحدیث ہے جیسا کہ امام ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے، صحیح احادیث کا اس جیسی حدیث سے کوئی معارضہ نہیں ۔‘‘ صحیح احادیث جو بخاری ومسلم وغیرہ کتب میں منقول ہیں جن میں دوران خطبہ دورکعت پڑھنے کا حکم ہے ان کا تقابل طبرانی کی ایسی روایت سے کرنا جس کا راوی منکر الحدیث ہو۔ قطعاً قرین انصاف نہیں،مگر مولانا صاحب اسے غیر تسلی بخش سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے مذہبی رجحان میں جوچاہیں سمجھیں،مگر حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کو نامکمل ذکر کرنا بہر حال مستحسن نہیں۔ کیا یہ حدیث حسن ہے؟ یہاں اس کی وضاحت بھی مناسب ہے کہ مولانا صاحب نے طبرانی میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کو مجمع الزوائد کے حوالے سے بھی ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے: ((وفیہ أیوب بن نھیک وھو متروک ضعفہ جماعۃ، ذکرہ ابن حبان فی الثقات وقال: یخطیٔ (مجمع الزوائد) قلت: والاختلاف لایضر فالحدیث حسن إن شاء اللّٰه)) [1] ’’مجمع الزوائد میں ہے کہ اس میں ایوب بن نھیک متروک ہے ایک جماعت نے اسے ضعیف کہا ہے، اسے ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے ثقات میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے وہ خطا کرتا تھا۔میں کہتا ہوں اختلاف کوئی مضر نہیں لہٰذا حدیث ان شاء اللہ حسن ہے۔‘‘ مولانا عثمانی نے اپنے ’’مختلف فیہ ‘‘ کے اصول کے تناظر میں جو فیصلہ فرمایا ہے۔ اس اصول کی بے اصولی ہم پہلے واضح کر آئے ہیں۔ یہاں بھی ایوب کے بارے میں تنہا امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کی بنا پر اسے مختلف فیہ قرار دیکر اس کی حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
Flag Counter