Maktaba Wahhabi

229 - 413
استخارہ کرتا ہوں۔‘‘ علامہ نووی نے کہا ہے کہ اس کے ضعف پر حفاظ کا اتفاق ہے۔[1] امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عمرو بن خالد واسطی حدیث گھڑنے میں معروف ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ ائمۂ حدیث نے اسے جھوٹا کہا ہے۔ امام وکیع بن جراح رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی طرف وضع حدیث کی نسبت کی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ ہمارا پڑوسی تھا فتنہ میں مبتلا ہوا تو واسط چلا گیا، اس کی متابعت عمروبن موسی بن وجیہ نے کی ہے،مگر وہ متروک ہے۔ اور اسے حدیث گھڑنے والا کہا گیا ہے۔ نعوذ باللّٰه من الخذلان۔[2] اندازہ کیجئے جس روایت کو باطل اور اس کے راوی کو کذاب اور وضاع قرار دیا گیا ہے افسوس ہے کہ وہ بھی کنز العمال کے مقدمہ کے مطابق حسن قرار دی جاتی ہے۔ مزید برآں عرض ہے کہ عمرو بن خالد نے یہ روایت زید بن علی سے بیان کی ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: کہ وہ زید سے موضوع روایات بیان کرتا ہے۔[3] امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے تو فرمایا ہے :کہ اس باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی ثابت نہیں۔[4] ائمہ محدثین کی ان تصریحات کے بعد اس کی کسی اور سند کا دعوی یا عمرو پر اتنی شدید جروح کے بعد جرح کے غیر معتبر ہونے کا غیر معتبراحتمال اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے۔ جمع الفوائد میں حدیث مولاناعثمانی صاحب بعض روایات علامہ محمد بن محمد بن سلیمان الفاسی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ۱۰۹۴ھ کی کتاب جمع الفوائد سے نقل کرتے ہیں۔ علامہ الفاسی رحمۃ اللہ علیہ نے چونکہ اس کے مقدمہ میں فرمایا ہے: کہ مجمع الزوائد ،دارمی اور ابن ماجہ سے وہی روایت ذکر کروں گا جس کا راوی
Flag Counter