Maktaba Wahhabi

104 - 413
کے سامنے پیش کیں توآپ نے ان میں سے صرف چھ یاسات احادیث کے علاوہ باقی سب کو پہنچانے سے انکار کر دیا۔‘‘[1] امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے اسلوب سے بھی ابان کی پوزیشن نصف النہار کی طرح واضح ہو جاتی ہے۔ امام ابو عوانہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے کذاب کہا اور اس سے روایت کو حلال قرار نہیں دیا، رؤیا صالحہ میں بھی اس کی حیثیت نہایت مخدوش قرار پائی۔ امام ابو عوانہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول اور حضرت حمزہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ خواب تہذیب[2] میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ بلکہ احمد بن علی آبار فرماتے ہیں: میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ کیا آپ ابان پر راضی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:نہیں[3] اندازہ کیجئے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اورامام مسلم رحمۃ اللہ علیہ ابو عوانہ رحمۃ اللہ علیہ سے ابان کے بارے میں کیا نقل کرتے ہیں[4] اور اسی تناظر میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اس کی روایت ’عبد اللّٰه بن مسعود عن أمہ‘ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ مگر ہمارے بزرگ اسے حسن قرار دینے میں سر گرداں ہیں۔ گُلِ دیگر شگفت: یہ بھی فرمایا گیا کہ شعبہ کے علاوہ کسی نے ابان کو جھوٹا نہیں کہا۔ لیکن اس کے باوجود وہ حدیث قنوت سے صبر نہ کر سکے، یزید بن ہارون فرماتے ہیں: میں نے شعبہ سے کہا اگر وہ جھوٹ بولتا ہے، تو آپ نے اس سے سماع کیوں کیا؟ انھوں نے فرمایا: اس سے کون صبر کر سکتا ہے۔ اس حدیث سے مراد یہی ابراہیم عن علقمۃ عن عبد اللہ عن أمہ کی روایت ہے۔[5] حالانکہ شعبہ کے علاوہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے کذاب کہا ہے،اور امام ابو عوانہ رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے بھی یہی مشعر ہوتا ہے کہ وہ کذاب ہے جیسا کہ علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ اور حاشیہ میں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے وضاحتہً ہم نقل کرآئے ہیں۔ بلکہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے
Flag Counter