Maktaba Wahhabi

232 - 413
راوی کی روایت حسن ہو سکتی ہے؟ بلکہ محمد بن فضاء نے یہ روایت اپنے باپ فضاء بن خالد سے بیان کی ہے اور علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: اسے صرف اس کا باپ روایت کرتا ہے اور اس میں جہالت ہے۔[1] حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا ہے کہ وہ مجہول ہے۔ [2] اس کے علاوہ ایک اور راوی اسماعیل بن عمرو بن نجیح البجلی بھی ضعیف ہے جیسا کہ میزان الاعتدال[3] ،لسان المیزان[4] میں ہے۔ اب بتلائیے جس روایت کا ایک راوی ضعیف دوسرا بھی ضعیف اور تیسرا مجہول ہو اسے محض جمع الفوائد کے ’’قاعدہ‘‘ کی بنیاد پر حسن یا صحیح قرار دیا جا سکتا ہے؟اور اس ’’قاعدے‘‘ کو درست کہا جا سکتا ہے؟ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ مولانا عثمانی صاحب نے جب اعلاء السنن لکھی تب طبرانی زیورِ طبع سے آراسہ نہیں ہوئی تھی۔ اور ان کے پیشِ نظر اس کی سند بھی نہیں تھی۔ لیکن مجمع الزوائد تو ان کے پیشِ نظر تھی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ انھوں نے اس کے لیے جمع الفوائد کا سہارا تو لیا،مگر براہِ راست مجمع الزوائد کی مراجعت کی زحمت نہیں فرمائی۔ کیا اس میں یہ خدشہ تو کار فرمانہیں تھا کہ مجمع الزوائد میں تو راوی کی حیثیت اور مزید کتبِ رجال سے اس کی پوزیشن واضح ہو جانا تھی۔ مگر مقصد تو اسے قابلِ عمل بنانا تھا اور اس سے استدلال تھا اور ایسا صرف جمع الفوائد کے خطبہ کے سہارے ہی ممکن ہو سکتا تھا۔ تصویر کا دوسرا رخ جمع الفوائد کے خطبہ کے اصول کے مطابق کتنی روایات ہیں جن پر علامہ ابن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ نے سکوت اختیار کیا ہے۔ مولانا عثمانی کے پسندیدہ اصول کا تقاضا ہے کہ وہ روایات بھی حسن یا صحیح ہونی چاہییں، مگر ہم معاملہ وہاں الٹاپاتے ہیں۔ مثلاً علامہ ابن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک روایت مسندِ بزار سے ذکر کی ہے جس کے راویوں کو انھوں نے ثقہ
Flag Counter