Maktaba Wahhabi

330 - 413
اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔ کہ ضعیف اور متروک راویوں کو قابلِ اعتماد اور حسن الحدیث بنانے میں حضرت مولاناصاحب رحمۃ اللہ علیہ کی حکمت عملی کیا ہے۔ اسی نوعیت کی دفاعی حکمت یہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ سلیمان بن داود شاذکونی سلیمان شاذ کونی مسئلہ رفع الیدین کے بارے میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کے مابین مناظرے کا راوی ہے۔ اور یہ مناظرہ جامع المسانید للخوارزمی[1] کے حوالے سے مولانا عثمانی نے اعلاء السنن[2] میں نقل کیا ہے۔ انھوں نے اس کے راویوں کے بارے میں فرمایا ہے: ’رجالہ قدتکلم فیھم‘ ’’اس کے راویوں میں کلام کیا گیا ہے۔‘‘سلیمان شاذکونی کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’وہ حفاظ میں سے ایک حافظ ہے،مگر کمزور ہے۔ عمرو الناقد کہتے ہیں: شاذ کونی بغداد آئے تو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: تم میرے ساتھ شاذکونی کے پاس چلو،ہم اس سے راویوں پر نقد کا علم حاصل کرتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی فرمایا: راویوں کو سب سے زیادہ جاننے والے یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور ابواب کے حافظ شاذ کونی ہیں۔ صالح جزرہ سے اس کے بارے میں سوال ہوا تو انھوں نے کہا: اس سے بڑا حافظ میں نے نہیں دیکھا،مگر وہ حدیث میں جھوٹ بولتا ہے۔’یکذب فی الحدیث‘ ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: میں نے عبدان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: اللہ کی پناہ کہ اسے متہم کہا جائے، اس کی کتابیں ضائع ہو گئی تھیں اور وہ زبانی حدیثیں بیان کرتا تھا۔‘‘ بس اتنی سی جرح نقل کر کے مولانا صاحب فرماتے ہیں: ’’ان راویوں سے احکام کے علاوہ استدلال کیا جائے گا، محدثین کا مغازی وسیر اور
Flag Counter