Maktaba Wahhabi

322 - 413
ایک لطیفہ جابر جعفی سے امام محمد بن حسن شیبانی نے کتاب الآثار اور موطا میں روایت لی ہے۔ مولانا عثمانی نے بھی موطا سے جابر کے واسطہ سے ایک روایت ذکر کی ہے، اور اس پر امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقد بھی ذکر کیا ہے،بلکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا سابقہ قول بھی ذکر کیا ہے جو ہم اوپر قواعد علوم الحدیث[1] کے حوالے سے نقل کر آئے ۔ پھر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی اس جرح کے علی الرغم شاگرد رشید کا جابر جعفی سے روایت لینے کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ((ولعل محمد بن الحسن احتج بروایتہ لتوثیق شعبۃ وسفیان وزہیر بن معاویۃ ووکیع إیاہ وثناء ھم علیہ)) [2] ’’شائدمحمد بن حسن نے جابر کی روایت سے استدلال شعبہ، سفیان،زہیر بن معاویہ اور وکیع کی توثیق اور جابر کی توصیف کی بنا پر کیا ہو۔‘‘ چلئے ہم اس کی دلیل کا مطالبہ نہیں کرتے اور حسن ظن کی بنا پر اس کو یہ کہتے ہوئے کسی حد تک تسلیم کرتے ہیں کہ دل کو بہلانے کا یہ طریقہ اچھا ہے،مگر کیا کیا جائے کہ مولانا عثمانی نے اعتراف کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے جابر کو کذاب کہنے کے باوجود اس سے روایت لی ہے۔ اب کیا جب انھوں نے روایت لی ہے، تو انھوں نے بھی شعبہ رحمۃ اللہ علیہ اور سفیان رحمۃ اللہ علیہ کی توثیق پر اعتماد کرنے کی بنا پر روایت لی ہے؟ اور کیا امام شیبانی رحمۃ اللہ علیہ کے لیے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ مقدم ہیں یا امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ ؟ اگر کذاب کہنے کے باوجود اما م ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اس سے روایت لے سکتے ہیں تو ان کے تلمیذ کے لیے کون سا امر مانع ہو سکتا ہے؟ سچ ہے کہ لن یصلح العطار ماافسدہ الدھر۔
Flag Counter