Maktaba Wahhabi

375 - 413
’’اور عبد الحمید بن یزید، سے اکیلے عثمان بتی روایت کرتے ہیں،وہ مستور الحال ہے اس جیسے کی حدیث ہمارے نزدیک اور بعض محدثین کے نزدیک مقبول ہے۔‘‘ غور فرمایا آپ نے کہ حضرت صاحب کیا فرما گئے اور ہاتھ کی صفائی سے کیا کرتب دکھاگئے۔کہ عبد الحمید سے روایت کرنے والا بھی ایک عثمان بتی ہے۔پھر بھی وہ مستور ہے۔ بتلائیے جناب! ایسا راوی مجہول ہوتا ہے یا مستور؟ خود انھوں نے علامہ عراقی رحمۃ اللہ علیہ سے ’’مجہول ‘‘ ہونا نقل کیا ہے۔ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے مجہول ہی کہا ہے۔[1] بلکہ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے ’لایعرف‘ مجہول ہی کہا ہے۔[2] امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے المعجم الکبیر[3] میں یہی حدیث ذکر کی ہے۔ علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بارے میں فرمایا ہے: ’فی إسنادہ مجاھیل‘ ’’اس کی سند میں مجہول راوی ہیں۔‘‘ [4] غور فرمائیے امام دارقطنی ،حافظ عراقی، علامہ ہیثمی اور حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہم تو عبد الحمید کو مجھول کہیں ،بلکہ خود مولانا عثمانی یہی حکم نقل بھی کریں۔مگر اس کے باوجود حضرت موصوف کی تحقیق انیق میں وہ ’’مستور‘‘ ٹھہرے اور اس کی حدیث حسن اور مقبول قرار پائے۔ غور فرمائیے کہ مجھول سے مستور بنانے کا تکلف کیا اسی پس منظر میں نہیں کہ اسے حسن اور اپنے موقف کی تائید کے قابل بنایا جا سکے؟ اس روایت میں باقی کہاں کہاں گھپلاہے یہ ہمارا موضوع نہیں ہم نے صرف یہ عرض کرنا ہے مذہب کی تائید میں یہ اصول بھی بنالیا کہ ایک ہی راوی مروی عنہ سے روایت کرے تب بھی وہ ’’مستور‘‘ ہوتا ہے۔ مقبول حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ تقریب التہذیب میں بعض راویوں کے بارے میں مقبول کہتے ہیں اور خود انھوں نے مقدمہ تقریب میں وضاحت کی ہے کہ جس راوی کی قلیل روایات ہوں اوراس میں کوئی ایسا سبب نہ ہو جس کی بنا پر اس کی حدیث کو ترک کیا جائے ایسے راوی کی
Flag Counter