Maktaba Wahhabi

254 - 413
روایت کرنے والا کوئی مشہور راوی انھوں نے ذکر کیا اور اس پر جرح بھی پہلے سے موجود ہے۔اس لیے امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کے اپنے اصول کے تحت بھی سعید کو الثقات میں ذکر کرنا درست نہیں۔ اس قسم کے تساہل کی بنا پر ہی انھیں توثیق میں متساہل قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا سعید بن عبد الجبار کا الثقات میں ذکر ہونا اس کے ’’مختلف فیہ‘‘ ہونے کی کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے۔ غور فرمایا آپ نے کہ یہ ’مختلف فیہ‘ کا اصول کس قدر مفید ثابت ہو رہا ہے۔ سند کا ایک راوی محمد بن حجر ضعیف، اس کا استاد سعید بن عبد الجبار بھی ضعیف، ام یحییٰ مجہولہ اور وہ بھی حنفی اکابر کے فیصلے کے مطابق، مگر یہ روایت پھر بھی دونوں راویوں کے ’مختلف فیہ‘ ہونے کی بنا پر حسن قرار پائے۔ ’’ام یحییٰ‘‘ تو شاید قرونِ اولی کے مجاہیل میں شمار ہو کر قابلِ قبول ہو، شاید اسی لیے انھوں نے اس کی طرف التفات نہیں فرمایا۔ ورنہ حنفی اکابر کے نزدیک وہ مجہولہ ہے۔ اصول کہاں گیا؟ اس روایت کے حوالہ سے مزید دلچسپ نقد وتبصرہ شائقین السلسلۃ الضعیفۃ[1] میں ملاحظہ فرمائیں۔ تنبیہ مولانا عثمانی مرحوم نے اسی روایت پر بحث کے دوران میں’’تنبیہ‘‘ کے عنوان سے ایک بات فرمائی ہے۔ ہم بھی مناسب سمجھتے ہیں اسی عنوان کے تحت اس کی وضاحت کر دی جائے چنانچہ فرماتے ہیں: ’’حضرت وائل کی یہ حدیث ابن ہمام نے فتح القدیر میں ذکر کی، اور اس میں’’بزار‘‘ کی جگہ ’’ترمذی‘‘ کا لفظ واقع ہوا ہے، شاید یہ کاتب کی تصحیف ہے، کیونکہ ابن ہمام نے صراحت کی ہے کہ اس میں محمد بن حجر ہے، اور وہ ترمذی بلکہ السنن میں سے کسی کے بھی راوی نہیں، لہٰذا یہ جاننے کے بعد ابن ہمام جیسے صاحب علم وفضل سے یہ
Flag Counter