Maktaba Wahhabi

275 - 413
ہے: وہ ثقہ راویوں کے ناموں پر حدیث گھڑتا تھا۔ سوائے تعجب کے اس کی حدیث لکھنا حلال نہیں اسی نے یہ روایت بیان کی۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: وہ بڑے جھوٹوں میں ایک جھوٹا تھا۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے المعرفہ میں کہا ہے یہ حدیث یعقوب بن ولید سے جانی پہچانی جاتی ہے ۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور تمام حفاظ نے اسے جھوٹا کہا ہے اور امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: وہ جھوٹ بولتا تھا اور جو حدیث روایت کرتا ہے وہ موضوع ہے۔‘‘ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس روایت کے بارے میں یہ جرح حتی کہ اس کا موضوع ہونا نقل کر کے اس پر خاموشی اختیار کرنا کیا اس کا اقرار اور اعتراف نہیں کہ یہ روایت موضوع ہے۔ مگر غور فرمائیے کہ صالح المری کی روایت پر بحث کے ضمن میں فرماتے ہیں: کہ ترمذی میں کوئی موضوع روایت نہیں۔فاعتبروا یاأولی الأبصار آٹھویں مثال مولانا عثمانی نے ’باب إذا أم قوما وھو جنب‘ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک اثر امام محمد کی کتاب الآثار وغیرہ سے نقل کیا ہے اور اس کے راوی ابراہیم بن یزید الخوزی المکی ہیں،جسے حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تقریب میں متروک کہا ہے اسے حسن الحدیث ثابت کرنے کے لیے ایک اسی اصول کا سہارا لیا گیا ہے کہ امام منذری رضی اللہ عنہ نے اسے مختلف فیہ راویوں میں ذکر کیا ہے۔ اس روایت اور اس راوی کے بارے میں ہم پہلے’’امام محمد الشیبانی کے اساتذہ اور ان کا کسی حدیث سے استدلال ‘‘ کے عنوان سے بحث کر چکے ہیں۔ اور مولانا مرحوم کے اس اصول کی بے اصولی بھی واضح کرآئے ہیں۔ نویں مثال مولانا عثمانی مرحوم نے ’باب کراھۃ جماعۃ النساء‘ کے تحت حاشیہ میں حضرت ام
Flag Counter