Maktaba Wahhabi

408 - 413
راوی کی تعیین میں سھو بلکہ سند کا ایک راوی ’’احمد بن محمد بن خالد‘‘ ہے مولانا صاحب فرماتے ہیں: ((وأحمد بن محمد خالد(کذافی الاعلاء) ھو الوھبی الکندی أبوسعید الحمصی روی عنہ البخاری فی جزء القراء ۃ وغیرہ)) الخ[1] ’’احمد بن محمد خالد(اعلاء السنن میں اسی طرح ہے) وہ وہبی کندی ابو سعید الحمصی ہے، اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جزء القراء ۃ میں روایت لی ہے۔‘‘ مولانا عثمانی نے دراصل بلادلیل یہاں احمد بن محمد بن خالد کو احمد بن خالد بن موسی بنا دیا جسے ’’ابن محمد‘‘یعنی احمد بن خالد بن محمد بھی کہا گیا ہے۔ تہذیب وغیرہ میں ہے ’’احمد بن خالد بن موسی ویقال ابن محمد الوھبی‘ مولانا صاحب نے ’یقال ابن محمد‘ سے سمجھا ہے کہ یہی احمد بن محمد ہے، جس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں،مگر یہ قطعاً غلط اور بلا دلیل ہے۔ احمد بن خالد بن موسی کے بڑے بھائی کا نام محمد ہے اس کے بارے میں تقریب اور تہذیب[2] وغیرہ میں ہے۔ محمد بن خالد بن محمد ویقال ابن موسی أخو أحمد‘ یہ اس بات کی واضح برہان ہے کہ احمد بن خالد بن موسی کے ترجمہ میں جو ’ویقال ابن محمد‘ ہے اس سے مراد احمد کے دادا کے نام میں اختلاف کی وضاحت ہے، احمد بن خالد کے باپ کی نہیں کہ اسے خواہ مخواہ ’’احمد بن محمد‘‘ بنادیا جائے۔ یہ سارا تکلف محض اسے ثقہ ثابت کرنے کے لیے ہے۔کیونکہ احمد بن محمد بن خالد کا ترجمہ بھی متد اول کتب میں نہیں ملتا۔ باقی مباحث سے قطع نظر انھی دو راویوں کے تناظر میں دیکھئے کہ ایسی سند کے بارے میں ’إسناد صحیح‘ کہنا مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کا کمال نہیں؟ ممکن ہے کہ کسی نکتہ بین کی نگاہ میں
Flag Counter