Maktaba Wahhabi

334 - 413
النہا رکی طرح واضح ہو جاتا ہے،مگر دیکھا آپ نے کہ مولانا صاحب کے اصول میں وہ مختلف فیہ ہے اور اس کی بیان کی ہوئی ’’حکایت‘‘ کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس قصہ کا پہلا راوی ابو محمد عبد اللہ بن محمد الحارثی ہے،جو مسند امام ابو حنیفہ کا جامع ہے۔ وہ بھی وضاع ہے اس کے بارے میں بھی مولانا عثمانی نے وہی زاویہ فکر اپنایا ہے، جو شاذکونی اور محمد بن ابراہیم کے بارے میں ہے۔ اس تفصیل سے قطع نظر امام احمد تو فرماتے ہیں: ’لم یسمع الأوزاعی من أبی حنیفۃ شیئا[1] ’’کہ امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے کچھ نہیں سنا‘‘مگر کذاب اور وضاع راویوں نے دونوں کے مابین مناظرہ ثابت کر دیا۔ اگر اس مناظرے کی کوئی حقیقت ہوتی تو بھلا امام محمد شیبانی، قاضی ابویوسف، امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہم اس سے بے خبر رہ سکتے تھے؟ نضر بن عبدالرحمن ابوعمر الخزاز حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا اس کے بارے میں فیصلہ ہے کہ وہ ’’متروک‘‘ ہے[2] اور حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’ضعفوہ جداً‘ ’’اسے بہت ہی ضعیف کہا گیا ہے۔‘‘[3] الکاشف[4] میں فرماتے ہیں: ’ساقط‘۔ جس سے خلاصۃً اس کی پوزیش واضح ہو جاتی ہے۔اس کے بارے میں ائمہ کرام نے حسب ذیل جرح کی ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ضعیف الحدیث لیس بشیء، امام ابنِ معین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:لیس بشیء،نیز یہ بھی فرمایا کہ: کسی کے لیے حلال نہیں کہ اس سے روایت لے، ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے لین الحدیث اور امام ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ نے منکر الحدیث،ضعیف الحدیث، ذاھب الحدیث کہا۔ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس کی احادیث باطل ہیں اس سے روایت نہ لی جائے۔ عثمان بن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس کا بیٹا بھی کذاب ہے۔ امام
Flag Counter