Maktaba Wahhabi

370 - 413
ہیں۔[1] حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’ متروک ورماہ الساجی وغیرہ بالوضع[2] اس لیے مروان’’ضعیف‘‘ نہیں متروک ہے متھم ہی نہیں یضع الحدیث ہے یہ اور اس جیسے راویوں کی روایت کو تائید میں پیش کرنا حدیث کی نہیں اپنے مذہب کی خدمت ہے۔ ہماری ان گزارشات سے حضرت مولانا عثمانی کے انداز فکر کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ اس حوالے سے بہت سے راویوں کے بارے میں ان کے اسی زاویہ فکر کی نشاندہی کی جا سکتی ہے،مگر یہاں مقصود استیعاب نہیں،بلکہ ان کے طرزعمل کی وضاحت ہے اس لیے ہم یہاں اسی پر اکتفاء کرتے ہیں۔ چند اصولی مباحث جب راوی مختلط ہو تو اس کے بارے میں یہ قاعدہ حدیث کے طالب علم کے ہاں معروف ومعلوم ہے کہ اس کی وہی روایت حجت ہو گی جو اس نے اختلاط سے پہلے بیان کی ہو یا اس کے ان تلامذہ نے اسے روایت کیا ہو جنھوں نے اختلاط سے پہلے سماع کیا ہے۔ اختلاط کے بعد سماع کرنے والوں کی روایت قابلِ استدلال نہیں ہو گی۔ اس حقیقت کا اظہار مولانا عثمانی نے قواعد فی علوم الحدیث[3] میں کیا ہے۔ لیکن اسی حوالے سے ایک اصول وہ بھی ہے جس کاذکر مولانا موصوف نے أبواب الإمامہ میں تتمۃ أولي فی فضل الإمامۃ علی الأذان کے تحت کیا ہے۔ چنا نچہ قیس بن أبی حازم کے بارے میں تہذیب کے حوالے سے اس کے اختلاط کا ذکر ہے۔ قیس رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرنے والے اسماعیل بن ابی خالد رحمۃ اللہ علیہ نے ہی ان کے اس عارضہ کا ذکر کیا، اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ نے بلاشبہ قیس رحمۃ اللہ علیہ سے اختلاط سے پہلے سنا ہے اور وہ قیس رحمۃ اللہ علیہ سے باکثرت احادیث بیان کرتے ہیں۔ مولانا اسی ضمن میں یہ بھی فرماتے ہیں: ((فإن الثقۃ لایروی ولا یحدث مارواہ المختلط فی حال الاختلاط)) [4]
Flag Counter