Maktaba Wahhabi

339 - 413
حالانکہ امام یحییٰ نیساپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر کلام بھی کیا ہے اور خبردار بھی کیا ہے وہ غیاث بن ابراہیم جیسے متروک بلکہ کذاب وضاع سے تدلیس کرتا ہے۔ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کہا ہے :کہ کذابین سے تدلیس کرتا ہے۔ سنن دارقطنی کی روایت اس نے ابو الحسین المدینی رحمۃ اللہ علیہ سے معنعن روایت کی ہے جیسا کہ خود مولانا صاحب نے اس کی سند نقل کی ہے۔ اس کے باوجود اسے ’’مختلف الحدیث‘‘ بنا دینا ان کے اپنے زاویہ فکر کا نتیجہ ہے۔پھر وہ تو کذاب راویوں سے تدلیس کرتا ہے، مولانا صاحب فرما چکے ہیں کہ ضعفاء سے تدلیس و ارسال کرنے والا بالاتفاق حجت نہیں،مگر یہاں تدلیس کے باوجود وہ مختلف فیہ ہے۔ ع بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں حمید بن ابی جون اور موضوع روایت مولانا صاحب نے امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’غرائب مالک‘‘ سے بحوالہ نصب الرایہ[1] وتروں سے متعلقہ ایک روایت نقل کی ہے اور اس پر امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کی جرح نقل کی ہے کہ حمید بن ابی جون ضعیف ہے۔ مولانا فرماتے ہیں: ہم نے تائید اً اسے پیش کیا ہے۔[2] حالانکہ حمید ضعیف ہی نہیں ،بلکہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: ’ھذا موضوع بھذا الإسناد‘ ’’یہ اس سند سے موضوع روایت ہے۔ ‘‘ اور امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کہا ہے: ’لایثبت ھذا‘ ’’یہ ثابت نہیں۔‘‘ ابن یونس رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اس نے ابن وہب رحمۃ اللہ علیہ سے منکر حدیث روایت کی ہے کسی نے اس کی متابعت نہیں کی۔[3] امام ابن یونس رحمۃ اللہ علیہ کا قول تو نصب الرایہ کے حنفی محشی نے بھی ذکر کیا ہے۔ ممکن ہے حافظ عراقی کی ذیل المیزان مولانا عثمانی کے پیش نظر نہ ہو، مگر لسان المیزان تو ان کے سامنے تھی۔ جابجا انھوں نے اس کے حوالے دیئے ہیں۔ اس سے اغماض بہر نوع درست نہیں۔کیا موضوع ،منکر اور غیر ثابت روایت کو تائیداً پیش کیا جا سکتا ہے؟
Flag Counter