Maktaba Wahhabi

234 - 413
تحسین ترمذی، مقدمہ کنز العمال ،جامع صغیر ،سکوت حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ استدلال مجتہد وغیرہ جیسے اصول متعین کیے اور ان کے سہارے اپنی پسند کی احادیث کو حسن یا صحیح بنانے کی کوشش کی وہاں انھوں نے حدیث کی تصحیح وتضعیف اور راویوں کی توثیق وتضعیف کا ایک ضابطہ ’’مختلف فیہ‘‘ ہونا بھی ذکر کیا ہے۔ مختلف فیہ حدیث اورراوی چنانچہ جس راوی کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کی آرا مختلف ہوں بعض نے ثقہ وصدوق اور دوسروں نے متروک وضعیف کہا ہو تو ایسے راوی کو حضرت موصوف صدوق اور اس کی حدیث حسن قرار دیتے ہیں۔اسی طرح حدیث کا معاملہ ہے۔اس اصول کا ذکر انھوں نے انھاء السکن، جو بعد میں’’قواعد فی علوم الحدیث‘‘ کے نام سے طبع ہوئی، میں بھی کیا اور اعلاء السنن میں بھی جابجا اس کا ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ قواعد میں رقمطراز ہیں: ((إذا کان الحدیث مختلفاً فیہ، صححہ أوحسنہ بعضھم وضعفہ آخرون، فھو حسن، وکذا إذا کان الراوی مختلفاً فیہ، وثقہ بعضھم وضعفہ بعضھم، فھو حسن الحدیث)) [1] ’’جب ایک حدیث مختلف فیہ ہو، بعض نے اسے صحیح یا حسن اور بعض نے اسے ضعیف کہا ہو تو وہ حسن ہو گی۔ اور اسی طرح جب راوی مختلف فیہ، بعض نے اسے ثقہ اور بعض نے ضعیف کہا ہو تو وہ حسن الحدیث ہے۔‘‘ اسی طرح انھوں نے قواعد[2] میں یہ بھی فرمایا ہے کہ مختلف فیہ راوی کی حدیث حجت ہوتی ہے گو وہ متفق علیہ حجت کی طرح نہیں۔اس کی تائید میں مولانا عثمانی نے تدریب الراوی، الترغیب والترہیب، فتح القدیراور تہذیب التہذیب وغیرہ کتب سے کچھ عبارتیں بھی نقل کی
Flag Counter