Maktaba Wahhabi

367 - 413
تصویر کا دوسرا رخ اب اس کے برعکس دیکھئے کہ ’باب أن لایؤذن قبل الفجر‘ میں ’امرأ ۃ من بنی نجار‘ سے بحوالہ ابوداود ایک روایت لائے ہیں، جس کے الفاظ مع ان کے تبصرہ کے ملاحظہ فرمائیں۔ ((کان بیتی من أطول بیت حول المسجد فکان بلال یأتی بسحر فیجلس علیہ ینظر إلی الفجر فإذا رآہ أذن، إسنادہ حسن رواہ أبوداود، تلخیص تخریج الھدایۃ[1]))[2] بالکل یہی روایت مولانا عثمانی نے ایک اور مقام [3] پر اسی طرح نقل کی ہے۔ اور نصب الرایہ[4] سے اس کا حسن ہونا بھی نقل کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کی مراجعت نہ سہی، نصب الرایہ تو مولانا صاحب کے سامنے ہے اس میں یہ روایت ابن اسحاق کے عنعنہ کے ساتھ منقول ہے۔ مولانا صاحب نے آنکھیں بند کر کے اس کی سند کو حسن کیونکر تسلیم کر لیا؟ جب ابن اسحاق کا عنعنہ ان کے ہاں علت کا باعث اور اس کی معنعن روایت حجت نہیں تو یہ حسن وحجت کیسے ہے؟ ابوداود مع عون المعبود[5] میں یہ روایت ابن اسحاق سے معنعن ہی منقول ہے۔ اسی طرح ایک روایت بحوالہ طحاوی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں اوراس کے راویوں کو ثقہ قرار دیتے ہیں بلکہ فتح الباری میں اس کے منقول ہونے کی بنا پر اسے حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حسن یا صحیح بھی قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ اس میں بھی ابن اسحاق عن سے ہی روایت کرتے ہیں۔[6]
Flag Counter