Maktaba Wahhabi

291 - 413
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ جنازہ کے آگے چلتے تھے اسی طرح دیگر خلفاء اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی‘‘ میت کو قبر ستان یا جناز گاہ لے جایا جائے تو ساتھ چلنے والے آگے آگے یا پیچھے پیچھے چلیں؟ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اس مرسل سے استدلال کر کے فرماتے ہیں کہ جنازہ کے آگے آگے چلنا افضل ہے، یہی موقف امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام لیث رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا ہے۔ مگر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور احناف جنازہ سے پیچھے چلنے کو افضل قرار دیتے ہیں۔ علامہ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ: ابن عمر رضی اللہ عنہما ، ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ ،حسن بن علی رضی اللہ عنہ ، ابن الزبیر رضی اللہ عنہما ، اکثر صحابہ وتابعین ، خلفائے راشدین، فقہائے سبعہ مدینہ طیبہ آگے چلنے کو ہی افضل قرار دیتے ہیں۔ گویا یہی عمل اہلِ مدینہ کا ہے امام زہری رحمۃ اللہ علیہ اسے’سنۃ مسنونۃ‘کہتے ہیں۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ہی امام زہری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا کہ جنازہ کے پیچھے چلنا ’ من خطأ السنۃ‘ غلط طریقہ وعمل ہے۔ بلکہ الاستذکار میں تو یہاں تلک کہہ گئے ہیں کہ اس باب میں پیچھے چلنے کی روایات ’أحادیث کوفیۃ لاتقوم بأسانیدھا حجۃ‘ کوفی احادیث ہیں جن کی اسانید ناقابلِ استدلال ہیں۔(التمہید والاستذکار) یہاں مقصود اس مسئلہ کی تنقیح نہیں بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں بلکہ اسے سنت قرار دیتے ہیں اور اس پر عمل نہ کرنے کو سنت میں خطا قرار دیتے ہیں۔ اس ’’جید مرسل‘‘ کو احناف قبول کیوں نہیں کر لیتے۔اس مرفوع ’جید مرسل‘ کے مقابلے میں کونسی صریح مرفوع متصل روایت ہے جس کے مقابلے ہیں یہ ’’مرسل جید‘‘ متروک ہے؟ یک نہ شددوشد امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کی مراسیل کے حوالے سے یہ بات بھی دیکھئے کہ مولانا عثمانی مرحوم ایک اور مقام پر رقمطراز ہیں:
Flag Counter