Maktaba Wahhabi

283 - 413
اور فرمایا ہے اس کے راوی الصحیح کے ہیں،مگر یحییٰ بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کی حضرت عبادۃ رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں۔ اس لیے اولاً تو اس موضوع کی روایات صحیح نہیں ہیں اور وہ باہم متعارض بھی ہیں۔ثانیاً: اگر ان کی کوئی اصل ہے تو ان مجموعہ روایات سے واضح ہوتا ہے کہ ان میں عورتوں کے اجتماع کے بارے میں وضاحت ہے یوں نہیں جیسا کہ مولانا مرحوم نے سمجھا ہے۔ لہٰذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرفوع حدیث اور ان کے عمل میں کوئی تعارض نہیں۔ یہ تمام معروضات تو برسبیل تذکرہ آگئیں ورنہ ہمارا مقصد تو صرف یہ واضح کرنا ہے کہ ’’مختلف فیہ‘‘ راوی کے حوالے سے یہاں جس قدر مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے باتیں بنانے اور انھیں اپنی تائید میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہ سراسر بے اصولی پر مبنی ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ختم قرآن کے حوالے سے یہ روایت ہی ضعیف نہیں، بلکہ اس موضوع کی دیگر اکثر روایات بھی ضعیف ہیں۔ مگر سردست ہمارا یہ موضوع نہیں۔ ہم ان اصولوں کی بے اصولی اجاگر کرنا چاہتے ہیں جن کے سہارے احادیث پر صحت وضعف کا حکم لگایا گیاہے۔ مدلس بھی مختلف فیہ راوی ہے مختلف فیہ راوی کے بارے میں جو اصول مولانا عثمانی نے ذکر کیا اسی حوالے سے یہ دلچسپ بات بھی ملاحظہ فرمائیں کہ ابواب الجمعہ میں باب عدم جواز الجمعۃ فی القری کے تحت ایک روایت کے بارے میں مولانا احمد حسن کے اس اعتراض ،کہ حجاج بن أرطاۃ مدلس ہے کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: (( قلت: قد وثقتہ وحسنت حدیثہ فی غیر ماموضع من کتابک ،وأما التدلیس فإنما یجعل الحدیث الصحیح مختلفاً فیہ لا ضعیفاً بالاتفاق، فقد قال الحاکم: الحدیث الصحیح ینقسم عشرۃ أقسام، خمسۃ متفق علیھا، وخمسۃ مختلف فیھا فذکر المتفق علیھا
Flag Counter