Maktaba Wahhabi

402 - 413
بے اصل روایت کو سہارا اس نوعیت کی بہت سی ضعیف روایات کو اس اصول سے اجمالاً سہارا دیا گیا ہے۔ حتی کہ جس کی سند خود انھیں معلوم نہیں اسے بھی مؤیدبالقیاس یا ہمارے فقہاء کے ہاں مقبول کہہ کر قابلِ عمل بنایا گیا ہے۔[1] نور الانوار کے حوالہ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے، جس کے حاشیہ میں اسے الحاکم کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور العرف الشذی سے نقل کیا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ فرمایا جاتا ہے کہ عموم کی تائید کے لیے کافی ہے،[2] مگرمولانا تقی عثمانی نے اس کی بھی قلعی کھول دی کہ ((لعلہ خطأ من ضابط العرف الشذی فإنہ یدل علی أن الشیخ وجد ھذہ الروایۃ ورأی فی إسنادہ ضعفاً، ولکنہ قال فی أمالیہ علی صحیح البخاری: ومافی حاشیۃ نور الأنوار نقلا عن مستدرک الحاکم۔۔۔فلم أجد فی النسخۃ المطبوعۃ ولا فی القدر الموجود من النسخۃ القلمیۃ عندی، ولو ثبت لکان فصلاً فی الباب)) [3] ’’میں کہتا ہوں شائد یہ العرف الشذی کے ضابط سے خطأ ہوئی ہے۔ کیونکہ اس سے تو یہ بات نکلتی ہے کہ شیخ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت پائی ہے اور اس کی سند کو ضعیف سمجھا ہے۔ حالانکہ ان کی صحیح بخاری پر امالی فیض الباری[4] میں انھوں نے کہا ہے کہ نور الانوار کے حاشیہ میں جو اسے مستدرک حاکم سے نقل کیا گیا ہے۔۔۔اسے میں نے مستدرک کے مطبوعہ نسخہ میں دیکھا ہے نہ ہی قلمی نسخہ میں جو میرے پاس ہے۔ اگر یہ روایت ثابت ہو جائے تو اس کی اس باب میں فصل کی حیثیت ہے۔‘‘
Flag Counter