Maktaba Wahhabi

244 - 413
تیسری مثال مولانا صاحب نے’ باب استحباب التکبیر عند قدقامت الصلاۃ‘ میں حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کی ہے۔ جس کے بارے میں مجمع الزوائد سے نقل کیا ہے: ((رواہ البزار وفیہ الحجاج بن فروخ وھو ضعیف)) ’’اسے بزار رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے اس میں حجاج بن فروخ ضعیف ہے۔ ‘‘ اس کے بعد مولانا صاحب فرماتے ہیں: ((ذکرہ ابن حبان فی الثقات کما فی اللسان فھو حسن الحدیث)) [1] ’’اسے ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے ثقات میں ذکر کیا ہے جیسا کہ لسان المیزان میں ہے۔ لہٰذا وہ حسن الحدیث ہے۔‘‘ یہاں بھی دراصل یہی ’’مختلف فیہ‘‘ کا اصول کار فرما ہے۔ ورنہ لسان المیزان میں ہے کہ امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ اور ابن الجارود رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ’لیس بشیء‘ کہا ہے اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف کہا ہے۔ امام عقیلی، الساجی اورابن عدی رحمۃ اللہ علیہم نے الضعفاء میں ذکر کیا ہے۔ ان ائمۂ کرام کے مقابلے میں تنہا ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کے قول کی بنا پر وہ مختلف فیہ ہیِ لہٰذا وہ حسن الحدیث ہے۔ حالانکہ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے تو کہا ہے: ’ قال النسائی ضعیف وترکہ غیرہ‘ ’’کہ اسے نسائی نے ضعیف اور دیگر نے اسے ترک کر دیا ہے۔‘‘[2] حافظ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے الضعفاء [3] میں ذکر کیا اور کہا: ’ قال یحیی لیس بشیء وقال الدارقطنی متروک‘ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: کہ اس نے کئی منکر احادیث روایت کی ہیں جن کی تفصیل بڑی طویل ہے اور انھی منکرات میں ایک وہ حدیث بھی ذکر کی ہے[4] جسے
Flag Counter