Maktaba Wahhabi

261 - 413
حدیث کو ذکر کرنے میں آخر کون سا امر مانع تھا؟ فاعتبروایا أولی الأبصار چھٹی مثال اس ’’مختلف فیہ‘‘ کے ضابطہ کے تناظر میں یہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ایک روایت غسلِ عید کے بارے میں مسند امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ((شیخ الإمام ھذا ضعیف لکنہ حجۃ عندہ، وقد عرفت أن الاختلاف غیر مضر)) [1] ’’امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا استاد ابراہیم بن محمد بن ابی یحییٰ الا سلمی ضعیف ہے لیکن امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حجت ہے اور آپ جان چکے ہیں کہ اختلاف کوئی مضر نہیں۔‘‘ اس کے بعد یہ بھی فرماتے ہیں: ’ھو محتج بہ کما مر[2] اس سے استدلال کیا گیا ہے جیسا کہ پہلے گزرا ہے۔ بلکہ اسے حسن الحدیث بھی قرار دیتے ہیں۔[3] حالانکہ ابراہیم الاسلمی ضعیف نہیں بلکہ متروک ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تقریب[4] میں کہا ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ ثقہ ہے؟ انھوں نے فرمایا: نہیں بلکہ وہ اپنے دین میں بھی ثقہ نہیں۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہ قدری، جہمی ، معتزلی تھا، بلکہ تمام مصیبتیں اس میں تھیں۔ نیز انھوں نے فرمایا: اس کی حدیث نہ لکھی جائے، لوگوں نے اسے ترک کر دیا ہے وہ ایسی منکر روایات بیان کرتا ہے جن کی کوئی اصل نہیں وہ لوگوں کی احادیث لیکر اپنی کتاب میں درج کر لیتا تھا۔ بشر بن مفضل رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: کہ میں نے اس کے بارے میں مدینہ طیبہ کے فقہاء سے پوچھا تو ان تمام نے کہا: وہ کذاب ہے۔ یحییٰ بن سعید رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے کذاب کہا ہے۔ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے اسے ترک کر دیا تھا ۔ ابن معین رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: وہ لیس بثقۃ اور کذاب ہے۔ نیز فرمایا: وہ
Flag Counter